پیر ‘10 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 14 اکتوبر 2024ء

پنجاب پولیس کی وردی کی خریداری کے لیے 90 کروڑ کی رقم مختص
معلوم نہیں کیوں پنجاب پولیس کی وردی کی تبدیلی پر اچانک وقفے وقفے سے اتنا زور دیا جاتا ہے۔ گویا یہی سب سے اہم کام ہے۔ سیانے بخوبی جانتے ہوں گے کہ کسی کو پنجاب پولیس کی وردی سے مطلب ہو یا نہ ہو مگر یہ جو کروڑوں روپے مختص ہوتے ہیں ان پر ان کی نظر ضرور رہتی ہے۔ اتنی رقم پر تو اچھے اچھے پارساؤں کی رال ٹپک پڑتی ہے۔ باقی رہا محکمہ پولیس تو اس میں ویسے ہی بڑے بڑے پارسا نیک اور اچھے لوگ کچھ زیادہ ہی موجود ہیں جن کی پارسائی کی زمانہ قسمیں کھاتا ہے۔ انھی کے لیے تو شاعر نے کہا تھا:
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
اب ایسے ہی لوگ مل جل کر اپنے جیسے ہی پارساؤں کی نئی وردی کے لیے یہ بھاری رقم خرچ کریں گے۔ جتنی توجہ پنجاب پولیس کی وردی پر ہے۔ اتنی توجہ اگر پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے پر دی گئی ہوتی تو آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔ کارکردگی کی بہتری زیادہ اہم ہوتی ہے، وردی نہیں۔ ہر حکومت پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے تھانہ کلچر درست کرنے کی باتیں کرتی ہے مگر وردی تبدیل کردیتی ہے۔ عوام کو شکایت وردی سے نہیں، اس رویہ سے ہے اس کلچر سے ہے جس نے پولیس اور ان میں دوریاں پیدا کر رکھی ہیں۔ اب چاہے امریکی وردی پہنا دیں یا برطانوی، اس سے کیا ہوگا۔ جب تک پولیس اور تھانے کے کلچر میں تبدیلی نہیں آتی، شکایات اور مسائل ویسے ہی رہیں گے۔ چلیں فی الحال تو یہ باتیں چھوڑیں بلاوجہ کڑوی کسیلی باتیں کرکے کیوں کروڑ والے ہاٹ کیک کی خوشی اور اس کے میٹھے ذائقے میں کڑواہٹ گھولیں۔ 
٭…٭…٭
کپتان کی صحت ٹھیک ہے، انھیں کسی اور بیرک میں نہیں بھیجا گیا، سپرنٹنڈنٹ جیل 
شکر ہے اڈیالہ جیل والوں کی طرف سے کپتان کی صحت کے بارے میں بتا دیا گیا ہے وہ بالکل صحت یاب ہیں۔ ساتھ ہی جگہ کی تبدیلی کی افواہ کا بھی جواب دے دیا ہے کہ انھیں کسی اور بیرک میں نہیں بھیجا جا رہا۔ انھیں موجودہ بیرک میں ہی رکھا گیا ہے جہاں ان کی مرضی کے مطابق انھیں ورزش کے سامان سمیت ہر وہ سہولت حاصل ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ اب اس کے باوجود نجانے کہاں کہاں سے افواہیں اڑتی رہتی ہیں کہ کپتان کی صحت خراب ہے۔ انھیں کوئی سہولت حاصل نہیں، وہ کھلی نما ڈربے میں بند ہیں۔ انھیں کوئی سہولت میسر نہیں جبکہ عدالت نے ان کی ہمشیرہ کی درخواست پر کہا تھا کہ آپ کے کہنے پر انھیں ورزش کے لیے سائیکل مشین تک دی جا چکی ہے۔ اب بھلا دیسی مرغی، انڈے، مٹن اور دیسی گھی استعمال کرنے کے بعد اسے ہضم کرنے کے لیے ورزش بھی لازمی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اڈیالہ میں تو سب خیریت ہے۔ ہاں البتہ جیل سے باہر شاید کچھ لوگوں کو صحت و سیاست کے حوالے سے کچھ مسائل درپیش ہوں گے جو ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی اس بار جو اسلام آباد پر چڑھائی کی بات کی ہے تو ہے کال کپتان کی رہائی کے لیے نہیں دی تھی، صاف کہہ دیا ہے کہ اگر آئی جی اسلام آباد کو نہیں ہٹایا گیا تو وہ اپنے لاؤلشکر کے ساتھ پھر ڈی چوک کا رخ کریں گے۔ یوں ایک بار پھر دمادم مست قلندر ہوگا مگر یہ بانی کے لیے آئی جی کی رہائی کے لیے ہو گا کیونکہ علی امین گنڈاپور کو اس بار یہ غصہ ہے کہ آئی جی اسلام آباد نے ان کے جلوس کو روکا، انھیں وی آئی پی پروٹوکول بھی نہیں دیا۔ اس لیے جب تک حکومت انھیں ہٹاتی نہیں، وہ پھر لشکر کشی کریں گے۔ جواب میں حکومت کی طرف سے تو فی الحال ’انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے چاند‘ کی فرمائش پر صرف ہنس رہی ہے۔ 
٭…٭…٭
بلوچستان میں فوجی ایکشن کی ضرورت نہیں، وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی
خدا کرے ایسا ہی ہو اور بلوچستان میں ان پہاڑوں میں چھپے ہوئے چوہوں کو مارنے کے لیے فوجی ایکشن لینا پڑے۔ آخر پولیس، رینجرز، ایف سی وغیرہ سے جب کام چل سکتا ہے تو پھر دیر کیوں، وزیراعلیٰ بلوچستان فوری طور پر دکی میں بی ایل اے کے دہشت گردوں کے ہاتھوں غریب مزدور کارکنوں کی بہیمانہ ہلاکت کا حساب چکتا کرے۔ اطلاعات کے مطابق دکی کی کارکنوں میں کام کرنے والے دوسرے علاقوں کے لوگ واپس جا رہے ہیں جس کی وجہ سے  کانوں میں کام بند ہو گیا ہے۔ کان کنوں کی بڑی تعداد سوات اور اس کے نواحی علاقوں سے آتی ہے، اس کے بعد ہزارہ کمیونٹی بھی یہ کام کرتی ہے۔ اب عرصہ سے افغانستان کے مہاجر بھی یہ مشقت طلب کام کر رہے ہیں۔ یوں صورتحال مزید خرابی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ بی ایل اے کی اس کارروائی سے بلوچستان میں آباد پشتونوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ کوئٹہ کے سینٹر میں میزان چوک پر ان میتوں کو رکھ کر جو احتجاج ہوا، نعرے بازی ہوئی۔ اس سے صوبے میں ایک نئی قومی تعصب کی فضا بنتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے بے گناہ مارے جانے والوں کے لیے فی کس پندرہ لاکھ کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم نے شنگھائی کانفرنس کے فوراً بعد بلوچستان آکر تعزیت کا کہا ہے، یہ ضروری ہے ورنہ ایک لاڈلہ وزیراعظم یہ کہتا تھا کہ لاشیں سڑکوں پر رکھ کر مجھے بلیک میل کرکے کوئی نہیں ہلا سکتا۔ یوں 40 دن وہ لاشیں بنا تدفین کے پڑی رہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس مرتبہ قبائلی معتبرین نے تدبر سے کام لیا اور کوئی جذباتی اشتعال نہیں پھیلایا۔ اب وزیراعلیٰ سکیورٹی فورسز کو ان ’موش کوہی‘ کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیں اور ساتھ ہی ہتھیار ڈال کر ملکی سلامتی اور وفاداری پر آمادہ گمراہ نوجوانوں کے لیے معافی تلافی کی راہ بھی کھلی رکھیں کیونکہ مار کے ساتھ پیار بھی ضروری ہے۔
٭…٭…٭
کراچی میں مسلح خاتون نے لفٹ کے بہانے موٹرسائیکل سوار کو لوٹ لیا
کراچی کی تو بات ہی نرالی ہے۔ ایک وقت تھا، نہیں شاید آج بھی ہے کہ ہر نیا فیشن ہر نیا ڈیزائن، ہر نئی چیز کراچی سے ہی سامنے آتی تھی، واقعی یہ شہر زندگی کے ہر شعبے میں لیڈنگ رول ادا کرتا تھا۔ پھر وقت بدلا تو معاملہ الٹا ہو گیا۔ ہر منفی کام میں آج یہ شہر سب سے آگے ہے۔ غنڈہ گردی، جرائم، قتل و غارت گری، ڈکیتی، چوری میں آج یہ شہر باقی صوبوں کی نسبت بہت آگے ہے۔ نت نئے انداز میں جرم پنپ رہے ہیں۔ اب گزشتہ روز ایک خاتون نے جس طرح مرد بائیک سوار کو لفٹ لینے کے بعد آگے جا کر اسلحہ دکھا کر لوٹ لیا۔ا س کے بعد تو دل پھینک قسم کے نرم دل یا رحمدل لوگ اب سڑکوں پر اس طرح کی وارداتوں میں اضافہ کے بعد ہوشیار ہو جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا ورنہ نیکی گلے پڑسکتی ہے۔کسی اجنبی خاتون کو لفٹ دینا ویسے ہی خطرے کا الارم بجا دیتا ہے۔ لاہور اور دیگر شہروں میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اسی طرح عورتوں کی مدد سے ڈکیتی کرنے والے ڈاکو گینگ تو سامنے آتے ہیں مگر اس طرح تن تنہا مسلح خاتون کا یہ طریقہ واردات اس عورت کی دلیری کا گواہ ہے۔ پولیس والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی عورت اسلحہ چھپا کر ڈکیتی مارنے نکلی ہے کیونکہ عورتوں کی تلاشی ابھی تک ہمارے ہاں ناممکن عمل ہے۔ اس مصیبت میں کوئی پڑنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ ڈکیت خاتون آسانی سے ڈکیتی مارنے میں کامیاب رہی۔ تاہم اس کی حفاظت و مدد کے لیے دو موٹر سائیکل اس کے ساتھی کو اس کو کور دینے کے لیے پیچھے موجود رہے تاکہ کسی بدمزگی یعنی مزاحمت کی صورت میں اپنی پھولن دیوی کی مدد کر سکیں۔ اب دیکھنا ہے یہ زنانہ طریقہ واردات اور کتنا فروغ پذیر ہوتا ہے اور کراچی والوں کو اب مردانہ کے ساتھ زنانہ ڈکیتوں کے ہاتھوں بھی لٹنا پڑے گا اور وہ بے بسی سے سوائے لٹنے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں کیونکہ گولی کا سامنا کوئی کرنا نہیں چاہتا۔ اب پولیس والے بھی ذرا دل بڑا کریں اور ایسے زنانہ گینگوں پر خصوصی نظر رکھیں۔ آخر زنانہ پولیس کب کام آئیگی، وہ تو ان کی تلاشی لے سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن