آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، اسم اعظم ’اللہ‘ ہی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جب اللہ پکارو تو تمھارے دل میں اس کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو ۔ (حاشیہ مراقی الفاماح)
حضور غوث اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں، صاحب ایمان کو چاہیے پہلے فرائض کو ادا کر ے جب ان سے فارغ ہو جائے تو سنتیں ادا کریاور پھر نوافل اور فضائل میں مشغول ہو ۔ فرائض سے فارغ ہوئے بغیر سنتیں اور نوافل ادا نہ کرے کیونکہ عبادات میں پہلا درجہ فرائض کا ہے ۔
آپؒ فرماتے ہیں، اے لڑکے تو دنیا میں عیش و عشرت کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ کے نا پسندیدہ کاموں کو چھوڑ دے ۔ تو نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ’لاالہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ‘ پڑھ لینا کافی ہے ؟ یہ تیرے لیے تب ہی فائدہ مند ہو گا جب تو اس کے ساتھ کچھ اعمال صالحہ ملائے گا ۔ ایمان اقرا ر اور عمل کا نام ہے ۔ جب تو گناہوں میں مبتلا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت کا مرتکب ہو گا ان پر اصرار کرے گا نماز ، روزہ ، صدقہ اور افعال خیر کو ترک کر دے گا تو یہ دو شہادتیں تجھے کیا فائدہ دیں گی ۔
جب تو نے لاالہ الاللہ کہا ہے تو یہ ایک دعویٰ ہے۔ تجھے کہا جائے گا اس دعویٰ پر کیا دلیل ہے ؟ اللہ تعالیٰ اور اس کی بنائی ہوئی تقدیر کو تسلیم کرنا اس کی دلیل ہے ۔ جب تو نے یہ عمل کیے تو اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے بغیر یہ عمل مقبول نہ ہوں گے ۔ قول کے بغیر عمل اور عمل کے بغیر اخلاص اور اتباع سنت کے مقبول نہیں ۔
زہد کے متعلق آپ ؒ فرماتے ہیں، جو آخرت کا طلب گار ہو اسے دنیا سے بے نیاز ہو جانا چاہیے اور جو اللہ تعالیٰ کا طالب ہو اسے آخرت سے بے نیاز ہو جانا چاہیے ۔ دنیا کو آخرت کے لیے اور آخرت کو اللہ تعالیٰ کے لیے ترک کر دے ۔ جب تک اس کے دل میں دنیا کی خواہش اور لذت باقی ہے اور جب تک وہ کھانے پینے کی اشیاء ، لباس ، اہل و اعیال ، مکان ،سواری اور اختیار و اقتدار سے راحت حاصل کرنا چاہے یا فنون علمیہ میں سے کسی فن مثلا ً مسائل عبادات سے زیادہ فقہ ، روایت حدیث یا مختلف قرأ ت سے قرآن مجید کے پڑھنے ، نحو ، لغت یا فصاحت و بلاغت میں محو ہو ، یا فقر کے زوال اور دولتمندی کے حصول یا مصیبت کے زائل ہونے اور عافیت کے مل جانے کے لیے کوشاں ہو ، مختصر یہ کہ نقصان سے بچنے اور نفع کے حاصل کرنے کی فکر می ہو وہ پورا زاہد نہیں ہے کیونکہ ان امور میں سے ہر ایک نفس کی لذت خواہش کی موافقت ، طبیعت کی راحت اور اس کی محبت مضمر ہے اور اس سے اطمینان و سکون میسر آتا ہے لہٰذاکوشش کی جائے کہ ان تمام امور کو دل سے نکال دیا جائے ۔