حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو یقین دلایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال سے صوبوں میں سروسز پر ٹیکس کے دائرے کو بڑھایا جائے گا اور اسے مثبت فہرست کی بجائے منفی فہرست سے بدل دیا جائے گا۔ تاجر دوست سکیم کو 36 شہروں میں توسیع کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ چھوٹے کاروباروں کو ٹیکس کے دائرے میں شامل کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے قرضہ پروگرام کو منظوری دیتے ہوئے پروگرام کے جو مقاصد بیان کیے ہیں ان میں ریونیو کو بڑھا کر مالی استحکام حاصل کرنا، ایسی مالیاتی پالیسی اختیار کرنا جس سے مہنگائی میں کمی آئے، ایکسچینج ریٹ کو لچکدار رکھنا، انرجی سیکٹر کو قابل برداشت بنانا ، بروقت ایڈجسٹمنٹ کرنا، سرکاری تحویل کے کاروباری اداروں میں اصلاحات کرنا اور گورننس کو بہتر بنانا، پروڈکٹ مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کرنا، اینٹی کرپشن کے لیے اصلاحات لانا، تمام قسم کی سبسڈیز کا خاتمہ اور تجارتی رکاوٹوں کا خاتمہ شامل ہے۔ آئی ایم ایف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ مالی سال 2026ء میں جن اشیاء پر ٹیکس کا ریٹ پانچ فیصد ہے اس کو 10 فیصد کر دیا جائے گا۔ بے شک متذکرہ بالا اصلاحات میں کئی ملکی مفاد میں ناگزیر ہیں جن سے معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔ موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں ٹیکس کا دائرہ کار بڑھانا بھی ضروری ہے جس کا تقاضا آئی ایم ایف کی طرف سے بھی بارہا کیا جاچکا ہے جس کے تحت ملک کے بااثر تاجروں، جاگیرداروں اور صنعت کاروں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کا کہا گیا مگر حکومت نے ٹیکس نیٹ کا دائرہ صرف تنخواہ دار طبقہ تک محدود کیا ہوا ہے جو اپنی تنخواہ وصول کرنے سے پہلے ہی ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہے جبکہ اشرافیہ ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ دکھائی دیتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر اشرافیہ کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے تنخواہ دار کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے ان کے لیے مہنگائی کے اس دور میں اپنے خاندان کی کفالت کرنا نہایت مشکل ہو چکا ہے۔اگر اس طبقے کو مزید دبایا گیا اور حکومت نے اپنا ناروا سلوک ترک نہ کیا گیا تو یہ طبقہ ملی بھگت سے اپنا ٹیکس بچانے کے لیے غیرقانونی راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے یا سڑکوں پر آکر حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ میں لائے اور جن متذکرہ اصلاحات کی آئی ایم ایف کویقین دہانی کرائی گئی ہے قومی مفاد اور عوامی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل درآمد کیا جائے۔