مجوزہ آئینی ترامیم مسودوں پر غور کے لیے ذیلی کمیٹی تشکیل

 مجوزہ آئینی ترامیم پر مشاورت کے لیے قائم پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی نے ترامیم سے متعلق سفارشات کی تیاری کے لیے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔ ذیلی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے 2 ارکان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کمیٹی 2 روز میں سفارشات مرتب کر کے خصوصی کمیٹی کو دے گی۔ مجوزہ آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا دوسرا اِن کیمرا اجلاس خورشید شاہ کی زیرصدارت اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ ساری جماعتوں کے مسودوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں۔ پی ٹی آئی کے اختلافات زیادہ ہیں، ان کے تحفظات بھی ہیں، پی ٹی آئی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کی گئی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ آئینی ترمیم کی نوعیت سیاسی نہیں، یہ پارلیمان کی بالادستی کے لیے کی جا رہی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ نمبرز پورے ہوں گے تو ترمیم ہو گی، نہ ہوئے تو نہیں ہو گی۔
مجوزہ آئینی ترامیم میں 54 تجاویز شامل ہیں جن کے ذریعے آئین کی شق 63، 51، 175، 187 اور دیگر میں ترامیم کی جائیں گی۔ ان میں بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھا کر 81 کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو دوسرے صوبوں کی ہائیکورٹس میں بھیجا جا سکے گا۔ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر سپریم کورٹ کے3 سینئر ججز کے پینل سے ہو گا، حکومت سپریم کورٹ کے 5 سینئر ججز میں سے چیف جسٹس لگائے گی۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیر اعظم کو دیے جائیں گے۔ مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہو گا۔ جج کی برطرفی کے لیے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدرِ مملکت دیں گے۔ وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا۔ چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہو سکے گی۔ وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی۔
دوسری جانب، سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی 3 رکنی بنچ تشکیل دیدیا ہے۔ 17 اکتوبر کو درخواست کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال شامل ہیں۔ وکیل عابد زبیری نے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔ ادھر، مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف سندھ ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کے معاملے پر پوری قوم کو اندھیرے میں رکھا کیا گیا ہے۔ ترمیم کا مسودہ جو سوشل میڈیا پر موجود ہے اس میں بیشتر شقیں عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہیں۔ وفاقی کابینہ کو مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ منظور کرنے سے روکا جائے۔ آئینی ترمیم کا مسودہ پبلک کر کے اس پر بحث کے لیے 60 دن کا وقت دیا جائے۔ درخواست میں سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن، سیکرٹری لا اینڈ جسٹس اور سیکرٹری پارلیمنٹ ہاؤس کو فریق بنایا گیا ہے۔
آئینی ترامیم پیکیج گزشتہ تقریباً ایک مہینے سے قومی سطح پر بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی جوڑ توڑ کے لیے بھی مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر مذاکرات کررہی ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک معاملات سلجھ نہیں پائے۔ اس معاملے کو الجھانے میں سب سے زیادہ کردار حکومت کے اس رویے نے ادا کیا ہے جس کے تحت یہ کوشش کی گئی کہ جتنی جلد ممکن ہوسکے ترامیم کے اس پیکیج کو پارلیمان سے منظور کرا لیا جائے۔ 54 تجاویز کا مطلب یہ ہے کہ آئینی ترامیم کا یہ پیکیج بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائے گا، لہٰذا ایسے معاملات کو جلد بازی میں آگے نہیں بڑھانا چاہیے بلکہ اس سلسلے میں تمام سٹیک ہولڈرز سے جامع مشاورت کی جانی چاہیے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پارلیمان کی خصوصی کمیٹی نے مسودوں پر غور کے لیے جو ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں پی ٹی آئی کے دو ارکان بھی شامل ہیں۔
یہ بات پہلے بھی کہی جاچکی ہے کہ آئین صرف قانونی ہی نہیں بلکہ ایک عوامی دستاویز ہے جس نے قانون سازی کے ساتھ ساتھ ملکی انتظام کے حوالے سے رہنمائی فراہم کرنا ہوتی ہے، اس لیے اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتے ہوئے عوامی نمائندگی کے لیے پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کو اپنی رائے کے اظہار کا پورا موقع ملنا چاہیے۔ ترامیم پیکیج کے مسودے کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے جو مسائل اور الجھنیں پیدا ہوئی ہیں ان کا حل اسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ اس مسودے کو منظر عام پر لا کر سب سے رائے لی جائے اور پھر باہمی مشاورت کے نتیجے میں اتفاقِ رائے سے جو ترامیم طے کر لی جائیں انھیں آئین کا حصہ بنا لیا جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے کو ضد اور انا کا مسئلہ نہ بنایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن