اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کا اجتماع

28 برس قبل کا منظر ذہن نشین کریں، چینی شہر شنگھائی میں ہونے والی  پہلی کانفرنس کے غیر معمولی نتائج نے دنیا کو حیران کر دیا۔ اس وقت سنٹرل ایشیاء کے 5 ممالک شریک ہوئے تھے۔ کانفرنس میں دفاع' توانائی اور تجارت کے مشترکہ مقاصد پر اتفاق کیا گیا 2001ء میں قازقستان کی کانفرنس میں شریک پندرہ ممالک اور مبصرین کی شرکت نے اس عالمی اجتماع کی اہمیت دو چند کر دی۔آج خوش بختی نے اسلام آباد پر دستک دی ہے ، شہر اقتدار میں رواں ماہ پندرہ اور سولہ اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے انعقاد کو ہر سطح اور ہر فورم پر ویلکم کہا جارہا ہے۔ کانفرنس کے حوالے سے شہر جمال و اقتدار کو دلہن کی طرح سجانے کا عمل آخری دم پر ہے۔ 22  ممالک سے سربراہان اور وزرائے اعظم کے ساتھ مبصرین کی بڑی تعداد پاکستان اور قوم کی عزت افزائی میں اضافہ کا سبب بنے گی۔ افسوس اور قلق اس بات پر ہے کہ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت نے سیاسی اور جماعتی فائدے کے لیے اس عالمی ایونٹ اور پاکستان کے وقار کو بھی نہیں بخشا۔ قوم کی تشویش بجا ہے کہ تحریک انصاف نے اجتجاج کے لیے پندرہ اکتوبر کا دن یہ کیوں منتخب کیا ؟

آپ ہی اپنی ادائوں پہ زرا غور کریں 
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
 ماشا اللہ پندرہ اور سولہ اکتوبر 2024 کا اجلاس ہونے جا رہا ہے اس میں چائنا کے صدر، روسی صدر ویلادمیر پیوٹن کے علاوہ ایران، قازقستان، کرغستان اور تاجکستان کے سربراہان شریک ہوں گے جب کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف میزبانی کے فرائض سرانجام دیں گے، بھارت کی جانب سے وزیر خارجہ جے شنکر اجلاس میں شریک ہوں گے۔ اس سے قبل بھی ا?ن کے وزیر خارجہ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی تھی۔ جب کہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کے کسی لیڈر نے پاکستان میں منعقد ہونے والی کسی بین الاقوامی یا علاقائی سمٹ میں شرکت نہیں کی۔ سائوتھ ایشیا کی تنظیم سارک بھی بھارت ہی کی وجہ سے سرد خانے میں پڑی ہوئی ہے کیونکہ سارک تنظیم کا اجلاس بھارت نہیں ہونے دیتا اور پاکستان سارک کا اجلاس کروائے تو اس میں شریک نہیں ہوتا۔ لہٰذا بھارت کی سردمہری کی وجہ سے سارک تنظیم بے جان ہو چکی ہے۔ مگر اب اچانک نریندر مودی نے اپنی جگہ وزیر خارجہ کو پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھیجنے کا اعلان کیا تو سب کو ایک حیرت کا احساس ہوا، اگر غور کیا جائے تو وہ موجودہ حالات میں بھارت سنٹرل ایشیا تعاون تنظیم کے اس بڑے سمٹ میں شرکت نہ کرکے مزید تنہائی کا شکار ہونا قطعاً افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ آبزرور ممالک کے علاوہ 9 ممالک کے سربراہان شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کریں گے جب کہ بھارت کی جانب سے ا?ن کے وزیر خارجہ جے شنکر شریک ہوں گے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے اس اجلاس کے ایجنڈے میں علاقائی تعاون، کمیونیکیشن اور دہشت گردی کیخلاف تعاون نمایاں طور پر شامل ہوں گے۔ بھارت اور چین کے درمیان بھی سرحدی تنازعات ہیں، اسی طرح بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی سرحدی تنازعات رہے ہیں۔ دوسری جانب افغانستان کیساتھ پاکستان کے سرحدی تنازعات انتہائی شدت اختیار کر چکے ہیں۔ جس طرح یورپ میں ریجنل گروپس ہیں اور دوسری جانب امریکہ میں ریجنل گروپس، جو باہمی تعاون کے ذریعے اپنے مسائل حل کرتے ہیں، اس لحاظ سے شنگھائی تعاون تنظیم سینٹرل ایشیائی ممالک کو ایک بہت بڑا فورم فراہم کرتی ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر نہ صرف خطے کے مسائل حل کریں ساتھ میں معیشت، توانائی، ڈینفنس اور سیکیورٹی جیسے معاملات میں بھی پیش رفت کریں اور ایک دوسرے کیساتھ تعاون بڑھا کر خطے کے تمام ر?کن ممالک کی معاشی ترقی، دفاعی صلاحیت اور سیکیورٹی جیسے مسائل کو باہمی تعاون سے حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ سنٹرل ایشیا بھی دنیا میں ایک مضبوط اور پائیدار خطہ بن کر ا?بھرے!!یقینا پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا انعقاد خصوصاً ان نازک حالات میں منعقد ہونا کارآمد ثابت ہو گا جو قیام امن اور معاشی ترقی کا باعث بنے گا۔ ہم سب کو اس عالمی اجتماع سے بہت امیدیں ہیں۔

ای پیپر دی نیشن