وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صوبے میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔’’وومن انکیلو‘‘کے نام سے خواتین کے لیے الگ سے سنٹر بن چکے ہیں ۔ہزاروں خواتین کو محکمہ پولیس میں بھرتی کیا جاچکا ہے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثما ن انور سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے نہ صرف امن و امان کی بحالی کے حوالے سے کوششوں سے آگاہ کیا بلکہ پولیس ملازمین کے لیے ،شہدا کے لیے تعلیم ،صحت اور دوسرے شعبوں میں معاونت کے حوالے سے اُٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔ہم نے محکمہ پولیس کی کارکردگی پر کئی کالم لکھ رکھے ہیں۔ لیکن کہتے ہیں ’’راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘ ۔ فرحت شہزادی عرف فرح گوگی کے بیرون چلے جانے کے بعد سے شہر کی خوبصورت لوکیشن پر بننے والا جی میگنولیہ ٹاون بے پناہ مسائل کا شکار ہے ۔سڑکیں اورچار دیواری ٹوٹ رہی ہے ۔سٹریٹ لائٹس اورچوکیداری کم کیے جاچکے ہیں۔کسی کو کتا کاٹ رہا ہے تو کسی گھر چور داخل ہورہے ہیں۔انتظامیہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہے ۔ستمبر کے آخری ہفتے ٹاون میں ایک واقعہ ہوا۔پولیس کے جوان ملزم کو گرفتار کرنے پہنچے، وہاں بہت سے لوگ جمع ہوئے۔اگلے دن سوشل میڈیا ،وٹس ایپ گروپس میں اس کا بہت چرچہ ہو ا ۔وقوعہ کے دو دن بعد کسی نے بتایا راجہ صاحب ! آپ کا نام پولیس کے خلاف مزاحمت کرنے والے لوگوں میںشامل کرکے ایک ایف آئی آر کٹ چکی ہے ۔پولیس کسی بھی وقت آپ کو گرفتار کر سکتی ہے ۔کہیں دائیں بائیں ہوجائیں یا ضمانت کرواکے پولیس کے پا س شامل تفتیش ہو جائیں۔عرض کیا ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔میں اس وہاں اس وقت توکیا ویسے بھی کبھی نہیں گیا۔ مدعیوں اور ملزموں سے میری نہ کوئی رشتہ داری ہے نہ عداوت۔میں اکیلا ہی گھر سے تھانے کے لیے نکل پڑا کہ جا کے پوچھوں ،صاحب بہادر میرا نام بنا کسی ثبوت کیسے ایف آئی آر شامل کر لیا ہے ۔ برادرم طاہر جاوید نمبر دار کا فون آگیا ۔کہنے لگے ،اتنی سادگی اچھی نہیں ۔اس سے پہلے کہ پولیس والوں کو آپ کے شاعر،کالمنگار،سفیر کتاب اور سوشل ایکٹیوسٹ ہونے بارے پتہ چلے انہوں نے گرفتاری ڈال کے حوالات میں بند کردینا ہے ۔آپ کچھ وقت کے لیے کہیں دائیں بائیں ہو جاو۔یہ پولیس آپ کے لکھے کالموں جیسی بلکل نہیں۔
جب میں موقع پر موجود ہی نہ تھا تو میرا نام کیوں لکھا۔کس نے لکھوایا ہوگا۔تھانہ صدر کے نکے تھانیدار نے ایف آئی آر میں نام شامل کرنے سے پہلے کچھ نہ سوچا۔میں اکثردعا کرتا ہوں کہ اے اللہ تو بہت عزت والا ہے تو نے مجھ نکمے،نالائق ،پینڈو اور سادے سے بندے کو جس عزت سے نواز رکھا ہے اسے بچائے رکھنا۔موٹر سائیکل پر سفر کرتے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا۔یا اللہ یہ کیا؟میں تو کل عالم کے لوگوں کی خیر مانگتا ہوں،کبھی کسی سے عداوت نہیں رکھی۔جس سے ناراضگی یا اختلاف ہو جائے اسے بھی برا بھلا نہیں کہتا ۔تو پھر یہ سب کیا ہے؟ایک جاننے والے افسر سے بات کی تو اس نے کہا راجہ صاحب!ایف آئی آر بہت سنگین نوعیت کی ہے ۔آپ عبوری ضمانت کے بعد ایس ایچ او سے ملیں اور اسے حالات و واقعات سے آگاہ کریں۔ایس ایچ او تھانہ صدر سے بمشکل ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا ،پولیس کو موقع پر موجود لوگ ہی نام لکھواتے ہیں ۔آپ کا نا م کسی نے شرارت سے لکھوادیا ہے ۔ہم اسے ایف آئی آر سے خارج کردیتے ہیں۔اس کے بعد کئی دن گزر گئے۔لاہور محترمہ عظمی بخاری نے سینیر کالمنگاروں،ٹی وی اینکرز کے ساتھ نشست رکھی۔حسب سابق مجھے دعوت نامہ ملا،لیکن اس دن شام چار بجے ایس ایچ او سے تھانے ملاقات کا وقت طے تھا۔تھانے کے کئی چکر لگائے لیکن صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی۔کبھی میچ ڈیوٹی،کبھی سی پی او دفتر تو کبھی کوئی اور مصروفیت۔ایک بار پھر طاہر جاوید نمبردار صاحب نے کہا راجہ صاحب !آپ نے مشاعرے،تقرریں،مباحثے،ادبی و ثقافتی محافل،الحمرا اور پتہ نہیں کہاں کہاں جانا ہوتا ہے۔خود کو اس مسئلے سے جلد نجات دلائیں۔ وقاص نذیر،اشفاق خان،حماد رضا،گوہر بھٹہ ،ریاض نذیر گاڑا،طارق عباس قریشی،سلطان اعظم تیموری اور دوسرے کئی سابق سی پی اوز،آر پی اوز سے اچھی سلام دعا رہی ہے ۔لیکن سستی اور کچھ مصروفیت کی وجہ سے موجودہ سی پی او اور آر پی او صاحب سے نہ مل سکا۔آئی جی پنجاب اسلام آباد مصروف تھے۔ انہیں فون کرنے کی بجائے DPRسید مبشر حسین سے رابطہ کیا۔تو کچھ ہی دیر بعد سی پی او گوجرانوالہ کے پی ایس او پرسنل اکرام خان کا بڑے سلجھے لہجے میںفون آیا۔راجہ صاحب !آپ پیر کے دن گیارہ بجے تشریف لائیں۔سی پی او صاحب سے مختصر سے ملاقات ہوئی۔ اگلے دن انہوں نے تھانہ صدر کے ایس ایچ او اور تفتیشی کو طلب کرلیا اور پھراسی شام مجھے اکرام خان نے بتایا کہ صاحب نے ایس ایچ او سے کہا ہے کہ ایک پڑھے لکھے شریف آدمی کا نام بنا کسی ثبوت کیوں لکھا گیا ہے ۔ان کا نام مقدمہ سے خارج کریں۔ جمعہ والے دن تھانے گیا تو کافی دیر بیٹھنے کے بعد محرر اشرف سے پوچھا ،بھائی تھانہ صدر کو ماڈل پولیس سٹیشن کا درجہ دیا گیا ہے لیکن یہاں تو کئی کئی دن ایس ایچ او سے ملاقات ہی ممکن نہیں ۔کافی دیر انتظار کے بعدایس ایچ او صدر قیصر شاہ سے ملاقات ہوئی ۔تو پتہ چلا،ماڈل پولیس سٹیشن تھانہ صدر کی حددو میں قریب پچاس لاکھ کی آبادی ہے ۔تھانے میںتیس سے پینتیس کی نفری ہے۔پھر دو چوکیاں ہیںایک میں تین اور دوسری میں چھ ملازمین ہیں۔یعنی پچاس لاکھ کی آبادی کے لیے صرف پچاس پولیس ملازمین۔تھانہ صدر کی عمارت دیکھ کے خیال آیا کہ اسے سجانے سنوارنے کے ساتھ ساتھ وزیر اعلی،آئی جی صاحب اگر دو تین نئے تھانے قائم کروادیتے۔ہر تھانے میں چالیس سے پچاس سپاہی بھرتی کروادیتے،ایف آئی آر درج کرنے والوں کی معاونت کے لیے جدید سائنسی تعلیم یعنی آئی ٹی پڑھے لکھے نوجوان بھرتی کروادیتے تو حقیقت میں پولیس کی کارکردگی بہتر ہو سکتی ہے۔اصل نقطہ یہ ہے کہ وزیر اعلی ،آئی جی،سی پی او صاحبان جب تک تفتیش کرنے والے نکے تھانیدار کا قبلہ درست نہیں کرتے تب تک جبر کا سلسلہ چلتا رہے گا ۔اگر تفتیشی اپنا کام ایمانداری سے کرنے لگے توہی حکام بالا کی طرف سے کئے گئے اقدامات کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں ۔
وزیر اعلی،آئی جی کے اقدامات اور پنجاب پولیس کا رویہ
Oct 14, 2024