پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ وہ کسی شخصیت کے لیے آئینی ترامیم کے لیے جدوجہد نہیں کر رہے، بلکہ اس کا مقصد عوام کو فوری انصاف پہنچانا اور اداروں کو مضبوط بناناہے انہوں نے کہا کہ یہ آگ اور دریا پار کرنے جیسی جدوجہد ہم گذشتہ تین نسلوں سے کرتے آرہے ہیں۔ یہ کوئی بندوق کا انقلاب نہیں رہا، اور کوئی چیز ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوئی۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ آج تو سب ہی 1973ع کے آئین پر متفق ہیں، لیکن شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے اسی آئین کی بحالی کے لیے 30 سال جدوجہد کی۔ وہ دو بار ملک کی وزیراعظم بھی بنیں، لیکن وہ آئین کی بحالی کا خواب پورا نہیں کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت کے ذریعے ہم نے 18 ویں آئینی ترمیم کی شکل میں 1973ع کا آئین بحال کیا۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ انہوں نے اپنے خاندان کی تین نسلوں ہر محیط جدوجہد کے دوران دیکھا کہ قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، شہید محترمہ بینظیر بھٹو کو 50 سینٹی گریڈ گرمی میں سکھر جیل میں قید کیا گیا، اور پیپلز پارٹی خواہ دیگر جمہوریت پسند جماعتوں کے کارکنان پر مظالم ڈھائے گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹوزرداری آئینی ترمیم کے حوالے سے کافی متحرک ہیں، آپ ملک کی مختلف بار کونسلز سے خطاب میں وفاقی آئینی عدالت کو عدالتی نظام کے لیے ناگزیر قرار دے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی ان سرگرمیوں کو میڈیا میں بھرپور کوریج مل رہی ہے جبکہ ٹی وی ٹاک شو میں یہ موضوع زیر بحث آچکا ہے۔ انہی کالموں میں بتایا جا چکا ہے کہ کہ15 ستمبر کو حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیمی مسودے کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کیے تھے۔ تاہم مسودے کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر یہ معاملہ التوا کا شکار ہو گیا تھا۔مجوزہ آئینی مسودے میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ، آئینی عدالت کے ججز کی عمر 68 برس کرنے اور آرٹیکل 63 اے میں ترمیم سمیت دیگر ترامیم شامل تھیں۔مولانا فضل الرحمان نے آئینی پیکج کی منظوری میں تعاون سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں اب ایکسٹینشن کا رجحان ختم ہونا چاہیے۔ خیال کیا جارہا تھا کہ یہ معاملہ اب آگے نہیں بڑھے گا لیکن بلاول بھٹو اس ضمن میں ہار ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ ملک بھر کی بار کونسلوں،ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے راہمناوں سے ملاقاتوں سمیت پریس کانفرنسز کے زریعے اس معاملے کو اجاگر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بی بی شہید کی یہ بہت بڑی خواہش تھی پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 2006 میں ہونے والے میثاقِ جمہوریت میں وفاقی آئینی عدالت پر اتفاق کیا گیا تھا۔ بی بی شہید اپنے ویڑن کے مطابق آئینی عدالت کے قیام کی بھی بات کرتی تھیں وہ جانتی تھی کہ اس سے ملک کا نظام بہتر ہو گا۔ پیپلزپارٹی اس معاملے پر اسی لیے سرگرم بھی ہے کیوں کہ میثاقِ جمہوریت میں وفاقی آئینی عدالت پر اتفاق کیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی یہ سمجھتی ہے کہ آئینی تنازعات کے حل کے لیے وفاقی آئینی عدالت ضروری ہے جس میں صوبوں کو مساوی نمائندگی ملے۔پیپلز پارٹی اس لیے بھی آئینی ترمیم چاہتی ہے کہ 1973 کا آئین پیپلز پارٹی کے بانی قائد نے دیا اس کو بحال بھی پیپلز پارٹی نے کیا اور اب اس پر موثر عمل درآمد کے لیے آئینی عدالت کا قیام ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی سمجھتی ہے کہ آئینی ترمیم کی ضرورت ہے مگر ڈرافٹ پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔بعض حلقوں کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی ناکامی کے بعد آئینی ترمیمی بل لانے کا کام پیپلزپارٹی نے اپنے ہاتھوں میں اس لیے لے لیا ہے کیونکہ ملک میں سیاسی اختلافات کی فضا میں بھی پیپلزپارٹی مفاہمت سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔پیپلز پارٹی نے آئینی ترمیمی بل کا مسودہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے حوالے کیا ہے جس پر جے یو آئی مشاورت کر رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اس مسودے پر اتفاق کے بعد آئینی پیکج بل دوبارہ ایوان میں لایا جائے گا۔ خیال ہے کہ حکمراں اتحاد موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی 25 اکتوبر کو ریٹائرمنٹ سے قبل آئینی مسودہ ایوان میں لانا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آئندہ چند دنوں میں یہ آئینی مسودہ ایوان میں لایا جا سکتا ہے۔
اپنے حالیہ انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت چاہے گی کہ آئینی ترمیم 25 اکتوبر سے پہلے ہو نجی ٹی وی کو انٹرویو میں چیئرمین بلاول بھٹو کو کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو، چاہتے ہیں سب کے اتفاق رائے سے آئینی ترمیم لائیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے دور میں پہلی بار ہوا، موجودہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات دوسرے جج سے شیئر کئے، ہم جسٹس فائز عیسی اور منصور علی شاہ دونوں کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں کہا تھا کہ سب کو مل کر بہتری کے فیصلے لینا چاہئیں، پارلیمان کی ایسی کمیٹی بنے جہاں سب کی نمائندگی ہو، ساتھ بیٹھنے کا ماحول بناتے ہیں تو پی ٹی آئی کی طرف سے خراب کیا جاتا ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ میرے دروازے آج بھی تحریک انصاف کیلئے کھلے ہیں، آج بھی جو کمیٹی بنی ہے اس کے ممبر موجود ہیں، آج تک پی ٹی آئی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ تحریک انصاف کا مشن پاکستان کو فیل کرنا ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کا سیاسی مقصد ہے کہ ملک جام ہو، چاہے معیشت، حکومت، پارلیمان یا سیاست ہو، ملک نہ چلنے سے نقصان ہم سب کا ہوگا، سیاسی فائدہ تحریک انصاف کا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مقصد آئی ایم ایف کا پروگرام سبوتاڑ کرنا، جوڈیشری نظام میں تبدیلی کو سبوتاڑکرنا ہے، پارلیمانی کمیٹی بنائی تو بانی پی ٹی آئی نے متنازع بیان دیا، بانی پی ٹی آئی نے جیل سے متنازع خط بھیجا، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کومتنازع بنانے کی کوشش کی۔بلاول بھٹو نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی ایسا ماحول بنانا چاہتے تھے کہ جوڈیشری میں ریفارم نہ لائی جاسکیں۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی مثبت سیاست کرنا چاہتی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو کم ہوتی نظر آرہی ہے، ہمیں حکومت کے ان مثبت اقدامات کی تعریف کرنا چاہیے۔
عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری اور نواز شریف کے درمیاں ایک اہم ملاقات بھی ہوئی ہے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے اسلام آباد میں ملاقات کی جس کے دوران ملکی سیاسی صورتحال، آئینی عدالتوں اور عدالتی اصلاحات سے متعلق آئینی ترامیم کے حوالے سے تجاویز پر مشاورت کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ہوئی۔نواز شریف اور بلاول بھٹو کی ملاقات کے جاری اعلامیے کے مطابق صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ تمام جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے عدل کا نظام وضع کرنا ہے، ایسا نظام عدل جس میں کسی فرد کی بالادستی نہ ہو بلکہ عوام کی رائے، اداروں کا احترام ہو اور ایک شخص کو وہ قوت اور اختیار حاصل نہ ہو جو اچھے بھلے جمہوری نظام کو جب چاہے پٹڑی سے اتار دے۔نواز شریف نے کہا کہ وقت نے ثابت کیا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا درست سمت اور درست وقت پر تاریخی فیصلہ تھا جس سے ملک میں جمہوریت کو استحکام ملا، پارلیمنٹ نے اپنی مدت پوری کرنی شروع کی۔انہوں نے مزید کہا کہ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں دھرنے، انتشار، خلفشار اور یلغار کی سیاست کرنے والی غیر جمہوری قوتوں کا تمام سیاسی جماعتوں نے مل کر مقابلہ کیا۔سابق وزیر اعظم نے اس امر پر زور دیا کہ سب جمہوری قوتوں کو مل کر پارلیمنٹ کے ذریعے عدل کا نظام وضع کرنا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فرد واحد ملک وقوم کو سیاہ اندھیروں کے سپرد کردے۔صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ آج حاصل ہونے والی معاشی کامیابیوں کی بنیاد بھی سیاسی اتحاد واتفاق ہے۔اس موقع پر نواز شریف نے بلاول بھٹو کے سیاسی کردار کو سراہا اور شاباش دی۔ملاقات کے دوران بلاول بھٹو نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے سیاسی وڑن، سوچ اور تجربے کی بہت قدر کرتے ہیں، ملک اور قوم کو ان کے سیاسی تجربے، سوچ اور پولیٹیکل وڑن کی ضرورت ہے۔بلاول بھٹو اور نواز شریف کی ملاقات کے دوران پیپلزپارٹی کے وفد میں یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شیری رحمٰن شامل تھیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کے وفد میں احسن اقبال، عرفان صدیقی، رانا ثنااللہ اور مرتضیٰ جاوید عباسی موجود تھے۔