’’ریکو ڈک‘‘ بلوچی زبان میں ریتیلی چوٹی کو کہتے ہیں۔ریکوڈک چاغی پہاڑی سلسلے کے متعدد آتش فشاں مراکز میں سے ایک ہے۔دراصل ریکو ڈک ٹیٹھیان بیلٹ کا ایک ارضیاتی خطہ ہے، اس کا شمار دنیا کے تانبے اور سونے کے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے اور یہ ضلع چاغی میں شروع کیا گیا ایک اہم ترقیاتی انقلابی پروجیکٹ اوربلوچستان کی معاشی و اقتصادی ترقی کی ضمانت ہے۔ لیکن ملک دشمن عناصر اس کو سبو تاز کرنے کیلئے مسلسل سر گرم عمل ہیں۔اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ چونکہ بلوچستان کی خوشحالی جڑی ہوئی ہے اس لئے بلوچستان کی کالعدم تنظیموں نے دہشتگردانہ کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے اور وہاں کے لوگوں بالخصوص نو جوانوں کو اس منصوبے کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے۔بے شک اس منصوبے کی تکمیل سے بلوچستان کی موجودہ اور آنے والی نسلیں مستفید ہوں گی۔ ریکوڈک کے ذخائر سے مالا مال چاغی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ضلع اور افغانستان و ایران کی سرحدوں کے قریب ہے۔ یہ ضلع خشک اور نیم خشک زمینوں پر مشتمل ہے جس میں وسیع صحرا، پہاڑی سلسلے اور کم نباتات ہیں۔ اس صحرا میں راسکوہ پہاڑیاں اور چاغی پہاڑیاں شامل ہیں۔ ضلع کی آبادی کم ہے کیونکہ یہاں کے حالات زندگی سخت ہیں۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے بلوچ ہیں جن میں دیگر نسلی گروہوں کے لوگ بھی ہیں۔ چاغی کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن میں ترقی کی کمی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور تعلیم و صحت کی دیکھ بھال اور صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات تک محدود رسائی شامل ہیں۔یقینا مذکورہ پروجیکٹ سے اس ضلع کا مستقبل سنور جائے گا۔اور دشمن یہی نہیں چاہتا ہے کہ بلوچستان کبھی ترقی کر ے۔در حقیقت بلوچستان کا امن تباہ کرنے کی بڑی وجہ یہ سونے کے پہاڑ ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب بلوچستان سے قدرتی ذخائر کو نکالا جائے گا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہی ہو گا‘ بلوچستان کے مقامی لوگ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘ یا باقاعدہ پلا ننگ کے تحت ان کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں صوبے کی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی مقامی تنظیموں کا تعاون بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر بلوچستان میں ترقی کا یہ سفر مکمل ہونا ناممکن ہے۔ریکوڈک منصوبے میں نصف صدی سے زائد عرصہ تک سالانہ 2 لاکھ ٹن تانبا اور 2.5 لاکھ اونس سونا پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پاک سعودی بزنس فورم 2024 ء سعودی عرب کے وزیر سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبدالعزیز الفالح نے ریکو ڈک کان کنی کے منصوبے میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کی مائننگ کمپنی (ماڈن) اور پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کا مشترکہ منصوبہ ’’منارا منرلز‘‘ آنے والے ہفتوں میں ریکوڈک میں شراکت داری کا معاہدہ کرے گا۔ تاہم ریکوڈک منصوبے کی تنظیم نو کا عمل دسمبر 2022 ء میں مکمل ہوچکا ہے جو اسے بین الاقوامی معیار کا طویل المدتی منصوبہ بنانے کی طرف پہلا قدم ہے، اس منصوبے کی تنظیم نو کے عمل سے بیرک گولڈ کمپنی کے تانبا نکالنے کے پورٹ فولیو میں اہم اضافہ ہوگا۔ اس وقت ایس آئی ایف سی اور غیر ملکی کمپنی بیرک کے اشتراک سے بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے سے وطن عزیز معاشی استحکام کے سفر پر گامزن ہے اور ریکو ڈک پاکستان کی معیشت میں 2028 ء سے اہم کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہوگا۔ریکوڈک کی عمر کم از کم 38 سال متوقع ہے جس میں ٹرک اور شاول اوپن پٹ آپریشن کے ساتھ پروسیسنگ کی سہولیات شامل ہیں جو اعلیٰ معیار کے تانبے اور سونے کے کنسٹریٹ پیدا کریں گی۔ تعمیر دو مراحل میں متوقع ہے جس میں مشترکہ پروسیس کی صلاحیت 90 ملین ٹن سالانہ ہوگی۔ ریکوڈک منصوبے میں تقریباً 5.87 بلین ٹن تانبے اور 42 ملین اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں جن کی پیداوار 2029 ء تک شروع ہونے کا امکان ہے۔ ریکوڈک منصوبے کے تحت استعمال کی جانے والی جدید مشینری سے کان کنی کے شعبے میں جدت آئے گی اور ملک کی مجموعی برآمدات میں اضافہ ہوگا، ریکوڈک منصوبے سے ملک میں ایس آئی ایف سی کے ذریعے محفوظ اور مظبوط پاکستان میں مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ریکوڈک منصوبے سے اگلے 40 سال تک ملکی معیشت میں سالانہ ایک بلین ڈالر کی آمدنی متوقع ہے، بے شک ریکوڈک منصوبہ ملک کے پسماندہ صوبے میں ترقی کا نیا باب کھولے گا۔ریکوڈک منصوبے کا 50 فیصد حصہ بیرک گولڈ کو، 25 فیصد حصہ وفاق کو جبکہ بقیہ 25 فیصد حصہ بلوچستان کو ملے گا۔ بلوچستان کے لوگوں کوپہلے ہی ایڈوانس رائلٹیز اور سماجی ترقیاتی فنڈز کے ذریعے ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ اس عظیم منصوبے کی تکمیل سے 8000 افراد کو روزگار مہیا ہو گا اور پیداوار کے مرحلے کے آغاز میں 4000 طویل المدتی ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ریکوڈک بلوچستان کے لیے اپنی معیشت اور معاشرے کو تبدیل کرنے کا سنہری موقع ہے، اس منصوبے کے تحت انڈس اسپتال اینڈ ہیلتھ نیٹ ورک کے ساتھ شراکت کے بعد ضلع چاغی میں صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی فراہمی کا آغاز بھی ہوچکا ہے، ہمائی اور نوکنڈی میں کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جبکہ چھوٹی بستیوں کے لیئے ایک موبائل ہیلتھ یونٹ بھی قائم کیا گیا ہے۔جبکہ ریکوڈک منصوبے کے تحت صاف پانی کے پلانٹس ہمائی، مشکی چہ اور نوک چہ گاؤں میں نصب کیے گئے ہیں جبکہ مزید ٹریٹمنٹس پلانٹس کی تنصیب کے لیے منصوبے جاری ہیں۔بیرک گولڈ کمپنی کے سی ای او مارک برسٹو کے مطابق، ریکوڈک منصوبے کے ابتدائی طور پر 45 سال تک چلنے کی توقع ہے لیکن اس کے 100 سال تک بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔مارک برسٹو کا کہنا ہے کہ ریکو ڈک پاکستان کی توانائی کی ضروریات میں اضافہ کرے گا اور درآمدی ایندھن پر انحصار کم کرے گا، اپنے تانبے کے وسائل کو ترقی دے کر پاکستان فوسل فیول پر اپنا انحصار کم کرے گا جس سے معیشت کو فائدہ پہنچے گا، اس کے علاوہ ریکو ڈک کے منصوبے سے بلوچستان کے لوگوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی میں بھی تبدیلی آئے گی، اس حوا لے سے برنائی، دربن چاہ، نو کنڈی اور نوکچاہ میں 4 بنیادی اسکول قائم کیے جاچکے ہیں۔بیرک گولڈ کمپنی کے سی ای او کے مطابق، کمپنی پرائمری تعلیم کے ساتھ ساتھ ووکیشنل ٹریننگ اسکول بھی بنا رہی ہے، اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ریکو ڈک نہ صرف بلوچستان کی معیشت بلکہ پورے پاکستان کی اقتصادی ترقی کا اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔