پختون جرگہ اور پختونوں کا فیصلہ

وفادار اور محب وطن پختونوں نے حکومت کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں کے بعد منظور پشتین کی نسلی اور لسانی بنیادوں پر چلائی جانے والی نفرت انگیز سیاست کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ پختونوں کی اکثریت نے اس نفرت انگیز سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر کے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہیں اور اپنی قومی شناخت کو کسی بھی نسلی یا لسانی سیاست کا حصہ بننے نہیں دیں گے۔

پختون جرگہ، جسے منظور پشتین اور پی ٹی ایم کی جانب سے بڑے پیمانے پر کامیاب قرار دینے کی کوشش کی جا رہی تھی، درحقیقت ایک بڑی ناکامی ثابت ہوا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق جرگے میں شامل لوگوں کی تعداد تقریباً 4000 سے 4500 کے درمیان رہی، جن میں سے اکثریت اے این پی، جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے حامی تھے۔ پشتین کے وفادار چند سو کی تعداد میں تھے، جو کہ اس کی عوامی حمایت کی واضح کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے دعوؤں کے باوجود عوام نے اس جرگے کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ جرگے کے مقام پر موجود لوگوں کی تعداد صوبے کی کل آبادی کے 0.0001 فیصد سے بھی کم تھی، جو کہ منظور پشتین اور پی ٹی ایم کی ناکامی کو نمایاں کرتی ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پشتون عوام نے پشتین اور اس کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے، کیونکہ وہ کسی صورت افغانستان کی ماتحتی قبول نہیں کریں گے، جو کہ پشتین کی آخری خواہش ہے۔پی ٹی ایم کی جب مقبولیت اپنی انتہا پر تھی تو ان کے جلسوں میں 4 سے 5 ہزار لوگ شامل ہوتے تھے، لیکن آج، پی ٹی آئی کے کارکنوں کی حمایت کے باوجود، ان کے نام نہاد جرگے میں وہی تعداد دیکھنے میں آئی۔ اس تعداد کا بڑھنا اب مشکل دکھائی دیتا ہے۔پشتون جرگے کی تاریخی اہمیت اور روایات بہت مضبوط اور منظم ہیں، جن میں سفید داڑھیوں والے مشران شامل ہوتے تھے جو اہم فیصلے کرتے تھے۔ جرگے میں خواتین کی شرکت کا کوئی تصور نہیں تھا، لیکن منظور پشتین کے اس جرگے میں آدھے ٹک ٹاکرز شامل تھے جو وہاں صرف ویڈیوز بنانے میں مصروف تھے، اور باقی لوگوں میں زیادہ تر افغانی شامل تھے۔ یہ چند ہزار وزیرستانی ٹک ٹاکرز اور ان میں شامل چند سو افغانی کس طرح سے پاکستان کے چار کروڑ پشتونوں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟ کس نے انہیں یہ اختیار دیا؟
یہاں تک کہ منظور پشتین نے جرگے کی تمام روایات کو توڑ کر ایک تماشہ بنا دیا، جو کہ بجائے خود پختونوں کے جرگوں کی توہین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پختون عوام نے اس جرگے نما جلسے کو کوئی توجہ نہیں دی اور اسے مسترد کر دیا۔ریاست پاکستان کے ترقیاتی اور امن بحالی کے اقدامات کے باوجود، کالعدم پی ٹی ایم نے مسلسل جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ پی ٹی ایم کی جانب سے جاری کردہ وائٹ پیپر میں ریاست کے اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا گیا کہ فوجی آپریشنز کی وجہ سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ اگرچہ فوجی آپریشنز کے نتیجے میں کچھ لوگ عارضی طور پر نقل مکانی پر مجبور ہوئے، لیکن ان کی تعداد 3.7 ملین کے بجائے تقریباً 2.5 ملین تھی، اور ان میں سے 90 فیصد سے زائد افراد کو ان کے گھروں میں بحال کیا جا چکا ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے بھی پی ٹی ایم نے مبالغہ آرائی سے کام لیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 2007 کے مقابلے میں 2023 تک دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کیے گئے 11 بڑے آپریشنز کے نتیجے میں ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
کالعدم پی ٹی ایم نے صنعتوں کے زوال اور غربت میں اضافے کا دعویٰ کیا، حالانکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ علاقوں میں غربت کی شرح میں 15 فیصد کمی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخواہ اور سابقہ فاٹا میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن سے علاقے میں روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ 2020 سے 2024 تک صوبے میں صنعتی بحالی کے لیے 1000 سے زائد منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں۔
پی ٹی ایم نے جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگوں کے 178 دھماکوں کا دعویٰ کیا، جبکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان کی تعداد 100 سے کم ہے۔ حکومت نے بارودی سرنگوں کے متاثرین کی بحالی کے لیے خصوصی منصوبے شروع کیے ہیں، اور متاثرہ علاقوں کا 70 فیصد حصہ کلیئر کیا جا چکا ہے۔پی ٹی ایم کے وائٹ پیپر میں 4,952 گمشدہ افراد کا ذکر کیا گیا، لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 2,000 سے کم ہے، اور ان میں سے زیادہ تر افراد واپس آ چکے ہیں یا ان کی تحقیقات جاری ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کے حل کے لیے ایک خصوصی کمیشن قائم کیا ہے جو شفاف تحقیقات کو یقینی بنا رہا ہے۔ان حقائق کے باوجود، پی ٹی ایم کے دعوے جھوٹے اور گمراہ کن ہیں، جن کا مقصد صرف ریاست کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرنا ہے۔ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی جانب سے امن و استحکام کے لیے کیے گئے اقدامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان کے اندر پشتونوں کی اکثریت ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہے، خاص طور پر سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں۔ پشتونوں کی بڑی تعداد ان علاقوں میں کاروبار اور دیگر سرگرمیوں میں مصروف ہے، اور ان کا پاکستان کے ساتھ جڑا رہنا ان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس بات کو پشتون عوام بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت پاکستان کو تقسیم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔منظور پشتین اور اس کے حامیوں کی جانب سے کیے جانے والے دعوے عوام میں مقبول نہیں ہو سکے، اور یہی وجہ ہے کہ پشتون عوام نے اس جرگے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ پاکستان کے ساتھ پشتونوں کی وفاداری اور ان کا قومی شعور اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کبھی بھی ریاست کے خلاف نہیں جائیں گے، اور پی ٹی ایم کی سیاست کو مکمل طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن