جب بھارت نے شمالی علاقہ جات پر قبضہ کی کوشش کی

             پاکستان کا شمالی علاقہ جات گلگت اور بلتستان کی دو بڑی ایجنسیز پر مشتمل ہے۔یہ علاقہ عسکری لحاظ سے بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ایک طرف تو پاکستان اور چین کے درمیان مشترکہ سرحد ہونے کی وجہ سے دونوں دوست ممالک ایک دوسرے کے لئے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت ہم دونوں ممالک کے خلاف ہے۔اس لئے ہم دونوں کا آپس میں عسکری اور معاشی تعاون بہت ضروری ہے۔ یہی ہم دونوں ممالک کا باہمی تعاون بھارت کے لئے ناقابلِ برداشت ہے۔ دوسری طرف اس خطے کی وجہ سے پاکستان اپنی دوستی اور تجارت وسط ایشیاء سے بڑھا سکتا ہے۔ اب جبکہ سی پیک روٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جس سے افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ بھارت ان ممالک سے تعلقات اور تجارت کے لئے بے چین ہے جو شمالی علاقہ جات پر قبضے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اس علاقے پر پاکستان کا قبضہ بھارت کے لئے ناسور بنا ہوا ہے۔ پھر اس علاقے میں قیمتی پتھروں اور معدنیات کی موجودگی بھی دونوں ممالک کے لئے ایک اہم کشش ہے جو مستقبل میں ان ممالک کی قسمت بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ جسے یہاں اباسین کہتے ہیں کی اس علاقے میں موجودگی سے اس علاقے کی اہمیت مزید بہت بڑھ جاتی ہے۔
            اس وقت بھارت کے لئے سی پیک اور اس علاقے کے ذریعے پاکستان اور چین کی قربت کسی عذاب سے کم نہیں۔بھارت کی شدید خواہش ہے کہ یہ رابطہ اور دوستی جیسے بھی ممکن ہو توڑ دی جائے۔روزِ اوّل سے لیکر آج تک اسی تگ و دو میں مر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس علاقے پر قبضہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے بھارت نے سر توڑ کوششیں کیںلیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ آج کل شیعہ اور سنی کی باہمی عداوت کی آگ بھڑکا کر علاقے میں سخت انتشار پھیلا رہا ہے۔ 1986-7ء میں بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی بہت قابل ، متحرک اور پیشہ ورانہ طور پر مانا ہوا سولجر تھا۔ اس نے پاکستان پر ’’براس ٹیک‘‘ فوجی مشقوں کے ذریعے حملے کا منصوبہ بنایا جس کی تفصیل کسی دوسرے کالم میں دے جائے گی۔ساتھ ہی شمالی علاقہ جات پر قبضے کے لئے آپریشن ’’ٹرائیڈنٹ‘‘ کی منصوبہ بندی کی گئی۔ حملے کی ذمہ داری کشمیر میں بھارت کی مقیم پندرہ کور )چنار کور)کو دی گئی۔ اس کور میں تین ڈویژنز یعنی نمبر3،19اور 28شامل تھے۔ ان کے علاوہ لداخ سکاؤٹس اور کچھ دیگر نیم فوجی تنظیمیں بھی موجود تھیں۔مزید مدد کے لئے بھارت نے اپنی چھٹا ڈویژن جو کہ بریلی میں مقیم تھا اور یو پی کے شمال مشرقی علاقے کو چینی حملے سے بچانے کا ذمہ دار تھا۔ پاکستان سے جنگ کی صورت میں اِسے پٹھان کوٹ کے کاریڈور میں لایا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ ایک پہاڑی ڈویژن ہے۔اِسے بھی حملے میں شامل کیا گیا۔
            اس حملے کی منصوبہ بندی کچھ اس طرح کی گئی کہ 19ڈویژن کا نمبر268برگیڈ گریز سے گلگت پر حملہ آور ہو گا۔یہ برگیڈ برزل پاس سے دریائے استور کیساتھ ساتھ گلگت جائے گا۔ 28ڈویژن کے دو بریگیڈ کارگل سے موو کر کے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اسکردو پر حملہ آور ہونگے۔ نمبر 3 ڈویژن کے تینوں برگیڈ یعنی نمبر 70، 102اور 114تھوئیسے سے خپلو جائیں گے اور ایمرجنسی میں اسکردو فورس کی مدد کریں گے ۔ اس فورس کی مدد کے لئے چھٹے پہاڑی ڈویژن کو بریلی سے ایک ہفتے کے اندر اندر لہہ میں اُتار دیا گیا۔اس ڈویژن کی ایمرجنسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن میں لہہ ائیر پورٹ پر 70لینڈنگز کی گئیں۔ چھٹے ڈویژن کو نمبر 3ڈویژن کی جگہ چین کے خلاف مورچہ بند ہونے کا حکم دیا گیا۔فوج کی یہ نقل و حرکت دسمبر 1986ء اور جنوری 1987ء میں کی جانی تھی جو اس علاقے میں سخت سردی کا موسم ہوتا ہے۔ حملہ 6فروری کو ہونا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہوا کہ جب چھٹا ڈویژن لہہ پہنچا تو اچانک بارہ ہزار نوجوانوں کی نفری بڑھ گئی جن کے لئے راشن موجود نہ تھا۔لہٰذا حملے کا منصوبہ دو دنوں کے لئے ملتوی کر کے 6فروری کی بجائے 8فروری مقرر کی گئی۔
            یہ نقل و حرکت کچھ اس قسم کی تھی جو پاکستان سے خفیہ نہ رہ سکی ۔ جب چھٹے ڈویژن کی ہوائی نقل و حرکت شروع ہوئی تو پاکستانی اینٹیلیجنس کو فوری بھارتی ارادوں کا پتہ چل گیا۔ پاکستان کی طرف سے زمانہِ امن میں خپلو، اسکردو اور گلگت میں عموماً ایک ایک برگیڈ کی نفری رکھی جاتی ہے۔ اب جب پاکستان کو بھارتی ڈویژن کی موومنٹ کی اطلاع ملی تو پاکستانی ائیر فورس نے شاندار کارکردگی دکھائی ۔ تین سے چار دنوں میں سی 130-کی تین سو پروازیں اُڑائیں اور چار بر گیڈ بمعہ سازو سامان شمالی علاقہ جات میں پہنچا دئیے۔ پاکستان نے اپنے دفاع کے لئے دو بر گیڈ خپلو میںتین برگیڈ اسکردومیں اوردو  برگیڈ گلگت میں متعین کر دئیے جس سے پاکستان کا دفاع مضبوط ہو گیا۔ ایمرجنسی کے لئے 111برگیڈ کو پنڈی میں الرٹ کر دیا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی اور اٹلی کی ایلپس کی بلند چوٹیوں پر لڑائی ہوئی تھی اُس کے بعد سے یہ جنگ بلند ترین چوٹیوں کی جنگ تھی ۔ بھارتی منصوبہ بندی کے لحاظ سے بھارتی ٹروپس کی ہدف تک نقل و حرکت ایک ہفتے میں مکمل ہونے کی توقع تھی۔ 
           کوئی بھی سمجھدار اور پیشہ ورانہ ماہر فوجی جنرل جو اس علاقے سے واقف ہو وہ کبھی بھی اس منصوبے سے متفق نہیں ہو گا کیونکہ یہ جنگ سخت سردی میں لڑی جارہی تھی۔ یہ علاقہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا علاقہ ہے۔ راستے کی بعض چوٹیا ں تو 14000فٹ سے بھی بلند ہیں جیسا کہ           ’’ برزل پاس‘‘14200فٹ بلند ہے اور سردیوں میں چار ماہ کے لئے یہ’’ پاس‘‘ انسانی آمد و رفت کے لئے مکمل طور پر بند رہتا ہے۔ یہ سارا علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے جہاں نقل و حرکت تقریباًتقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔ اگر برف پکی ہو تو اس پر بہت زیادہ پھسلن ہوتی ہے اور کچی ہو تو انسان دھنس جاتے ہیں لہٰذا وہاں چلنا ممکن نہیں ہوتا۔ ان دریاؤں کیساتھ ساتھ وادیاںبھی بہت تنگ ہیں۔ زیادہ آدمی اکھٹے نہیں چل سکتے۔ مناسب جگہ پر چند آدمیوں کی ناکہ بندی پوری بٹالین کو تباہ کر سکتی ہے جیسے 1948ء میں مجاہدین نے اسکردو کے راستے میں کشمیر کے برگیڈئیر فقیر سنگھ کا برگیڈ تباہ کیا اور گلگت کے نزدیک بھوپ سنگھ کی بٹالین تباہ کی ۔ گو بھارت کی طرف سے پہاڑی اُترائی تھی لیکن پھر بھی کوئی معجزہ ہی انہیں ایک ہفتے میں ہدف تک پہنچا سکتا تھا خصوصاً جبکہ راشن اور بھاری ہتھیار بھی ساتھ ہوں۔ بھارتی پوزیشنوں سے پاکستانی پوزیشنوں تک مختلف مقامات کی طوالت 150کلومیٹر سے 200کلومیٹر تک تھی۔ اس حملے کا وقت 8فروری کو صبح ساڑھے چار بجے تھا جس کا تین بجے خاتمے کا حکم دے دیا گیا۔اس کی تین بڑی وجوہات تھیں۔اوّل بھارتی منصوبہ لیک ہو گیا تھا اور پاکستان نے اپنی پوزیشنیں مضبوط کر لیں تھیں جنہیں فتح کرنا آسان نہ تھا۔ دوسرا یہ کہ سعودی عرب ، یو اے ای اور امریکہ کو پتہ چل گیا اور اُن کی طرف سے بھی پریشر آیا اور سب سے اہم صدر ضیاء الحق کی کرکٹ ڈپلومیسی تھی۔جس کی تفصیل اگلے کالم میں دی جائے گی۔پاکستان زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن