سیاسی قیادت اپنی ذمہ داری پوری کرے!

Sep 14, 2009

رانا اعجاز احمد خان
ملک کوئی بھی ہو‘ اپنے ہی لوگوں کے خلاف فوج کا استعمال نفرت‘ بے چینی اور بدامنی کا باعث ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کے کسی بھی حصے میں محدود یا وسیع پیمانے پر جب بھی فوجی آپریشن کئے گئے عام لوگوں کے لئے باعث اطمینان کبھی نہ ہوئے۔ ایسا بھی ہوا کہ ان آپریشنوں کے نتیجے میں حکومتیں بھی بدل گئیں۔ فوج کا اصل کام تو سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اسے سیاسی معاملات میں الجھانے کا مطلب دفاع پاکستان کو کمزور اور فوج کے بارے میں عوام کے دل میں نفرت پیدا کرنا ہے۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے بعد پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو آہستہ آہستہ فوج کو اپنے لوگوں کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا پڑا۔ آج ایک لاکھ کے قریب فوجی و نیم فوجی دستے سوات‘ مالاکنڈ‘ جنوبی و شمالی وزیرستان اور سرحد کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر برسرپیکار ہیں۔ ان کا دشمن کون ہے؟ امریکہ کو للکارنے والے لوگ‘ جن کو طالبان اور القاعدہ کا نام دیا جاتا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کی آڑ میں جہاں کون کون اپنے اپنے مفادات کے لئے سرگرم ہے؟ اس کا امریکی میڈیا نے بھی انکشاف اور اعتراف کیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ اپنا کام دکھا رہے ہیں۔ ایسے دشمنوں کی سرکوبی کیلئے فوج اور دیگر اداروں کا استعمال بالکل درست ہے لیکن انتہائی احتیاط سے فوج اگر احتیاط سے کام لیتی ہے تو ڈرون حملے بچوں اور خواتین کو بھی خاک اور خون میں ملا دیتے ہیں۔ گولی دوست اور دشمن میں فرق نہیں کرتی۔ دشمنوں پر چلے تو بہتر، اپنوں پر چلے تو نفرت کی خلیج کو وسیع سے وسیع تر کر دیتی ہے۔ یہی کچھ قبائلی علاقوں میں ہو رہا ہے۔ فوج دشمن کو مارتی ہے۔ دشمن کے ایجنٹ بے گناہوں کو تہ تیغ کرکے یہ کارروائیاں فوج کے کھاتے ہیں ڈال دیتے ہیں۔ فوجی ترجمان کے مطابق آٹھ سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کی کارروائیوں میں 4 ہزار شدت پسند جبکہ 18 سو فوجی افسر اور جوان اپنی جانوں سے گئے پاک فوج کے 5 ہزار افسر اور جوان زخمی ہوئے۔ 4 ہزار سویلین کے مارے کا مطلب زخمیوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ ان میں سے اصل مجرم کتنے اور بے گناہ کتنے ہیں؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ سوات آپریشن کامیاب ہو چکا۔ دیگر علاقوں میں جاری ہے۔ فوج نے بالکل درست کہا’’ سوات اور مالاکنڈ میں پاک افواج نے اپنا کردار ادا کر دیا اب یہ سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صورتحال معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے اگر اس نے ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو حاصل شدہ فوائد ضائع ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اب سیاسی قیادت کو جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا کیونکہ طاقت کا استعمال ایک حد تک کیا جا سکتا ہے حد سے زیادہ طاقت کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔‘‘
اپنے ہی لوگوں کے خلاف تو طاقت کا استعمال ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کر لیا گیا ہے اس سے فوج مطمئن ہے تو اب معاملات کو سیاسی طور پر حل کرنا چاہئے جس کا بہترین طریقہ مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 6 ہزار فوجی اور سویلین کھو بیٹھے ہیں مذاکرات کی میز پر آ کر امن قائم ہونے کے ساتھ فوجیوں اور سویلین کو بچایا جا سکتا ہے۔
مزیدخبریں