بحرانوں کا تسلسل اس طرح قائم ہو چلا ہے جس طرح کسی زنجیر کی کڑیاں ایک دوسری سے جڑی ہوتی ہیں ایک کے بعددوسرا بحران اور دوسرے کے بعد تیسرا آتا ہے اور پوری قوم گھبراہٹ سے نکل ہی نہیں پاتی۔ یہ بحران کہاں سے آتے ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ اپنی مجموعی شکل میں کیا ہیں؟ اور ان کی انفرادی نوعیت کیا ہے؟ کبھی کسی نے غور ہی نہیں فرمایا۔ ناہی کسی نے کبھی بحران پیدا کرنے والوں کو قوم کے سامنے لانے یا کیفر کردار تک پہنچانے کی زحمت کی ہے۔ ہر بحران کے دوران چند دن واویلا مچتا ہے اس کے بعد اگلے بحران کی مصیبت سر پر آ پہنچتی ہے۔ یہ سلسلہ 1947ء میں قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا اور آج تک جاری ہے ابھی پچھلے چند سالوں سے ہی دیکھ لیں ایک کے بعد دوسری حکومت کا دھڑن تختہ، فوجی حکومتیں، دہشت گردی، خودکش حملے، محترمہ بے نظیر کا قتل، بجلی اور پانی کا بحران، آٹے کی قلت اور اب چینی لیکن جس طرح ہم گھروں میں بیٹھے بٹھائے ایک کے بعد دوسرے بحران میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح موجودہ سے پہلے والے بحران کو بھی اتنی ہی تیزی اور ’’دیانتداری‘‘ سے بھول بھی جاتے ہیں آج نا تو کسی کو خانانی اینڈ کالیا یاد رہے ہیں اور نا ہی ڈالروں کا بحران یاد ہے اسی طرح جنرل مشرف بھی بھلا دیئے جانے والے ہیں اور چینی کے بحران کے ذمہ دار بھی اس وقت تک یاد رہیں گے جب تک چند بڑے لوگوں کی آپس میں افہام و تفہیم نہیں ہو جاتی ۔ جنرل مشرف کو ذرا سی گرمی پہنچی تو سعودی عرب سے میاں نوازشریف صاحب کو پیغام آ گئے کہ معاف کر دیجیئے اور میاں صاحب کی یکدم خاموشی سے لگتا ہے کہ انہوں نے جنرل مشرف کو معاف بھی کر ہی دیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ قوم درمیان میں سے اس طرح نکلتی ہے … بے چاری نہ کبھی تھی، نہ ہے اور نا ہی کبھی ہو گی کبھی کسی کو قومی مجرم ہونے پر سزا نہیں ملی صرف نعرہ ’’بجتا ہے‘‘ اور جب ایک فریق دوسرے کے شکنجے میں آ جاتا ہے تو سب کچھ آپس میں ہی طے ہوتا ہے اور قوم کو یہ تک پتہ نہیں چلتا کہ طے کیا ہوا ہے؟ کبھی فلم کو زیادہ حقیقی روپ دیا جانا ہو تو زیادہ سے زیادہ چند ہرکارے پکڑ لئے جاتے ہیں یا کوئی چھوٹا موٹا نقاب پوش بے نقاب کر دیا جاتا ہے تاکہ اصلی والے مزید محفوظ ہو جائیں ورنہ یہاں تک بھی نوبت کم ہی لائی جاتی ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ چینی کا بحران لانے والے کون ہیں لیکن نہیں پتہ تو قومی نظام، قومی دستاویزات، اور انتظامی کٹہروں کو نہیںپتہ۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے ذرائع پر اعتماد کرتے ہوئے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی کوئی اور نیا بحران آنے والا ہے جو چینی کے بحران کو پرویز مشرف کی طرح قصہ پارینہ بنا دے گا اور بحران کی کمائی کھانے والے دولتیں سمیٹ کر کسی غیر ملکی بنک میں … رکھیں گے اور ہم ہمیشہ کی طرح بدنصیبی کے کسی ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں گھومتے گھومتے اس سے بھی اگلے بحران میں جا داخل ہوں گے۔
بحران اور بدنصیبی کے دائرے
Sep 14, 2009
بحرانوں کا تسلسل اس طرح قائم ہو چلا ہے جس طرح کسی زنجیر کی کڑیاں ایک دوسری سے جڑی ہوتی ہیں ایک کے بعددوسرا بحران اور دوسرے کے بعد تیسرا آتا ہے اور پوری قوم گھبراہٹ سے نکل ہی نہیں پاتی۔ یہ بحران کہاں سے آتے ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ اپنی مجموعی شکل میں کیا ہیں؟ اور ان کی انفرادی نوعیت کیا ہے؟ کبھی کسی نے غور ہی نہیں فرمایا۔ ناہی کسی نے کبھی بحران پیدا کرنے والوں کو قوم کے سامنے لانے یا کیفر کردار تک پہنچانے کی زحمت کی ہے۔ ہر بحران کے دوران چند دن واویلا مچتا ہے اس کے بعد اگلے بحران کی مصیبت سر پر آ پہنچتی ہے۔ یہ سلسلہ 1947ء میں قیام پاکستان کے فوراً بعد سے ہی شروع ہو گیا تھا اور آج تک جاری ہے ابھی پچھلے چند سالوں سے ہی دیکھ لیں ایک کے بعد دوسری حکومت کا دھڑن تختہ، فوجی حکومتیں، دہشت گردی، خودکش حملے، محترمہ بے نظیر کا قتل، بجلی اور پانی کا بحران، آٹے کی قلت اور اب چینی لیکن جس طرح ہم گھروں میں بیٹھے بٹھائے ایک کے بعد دوسرے بحران میں پہنچ جاتے ہیں اسی طرح موجودہ سے پہلے والے بحران کو بھی اتنی ہی تیزی اور ’’دیانتداری‘‘ سے بھول بھی جاتے ہیں آج نا تو کسی کو خانانی اینڈ کالیا یاد رہے ہیں اور نا ہی ڈالروں کا بحران یاد ہے اسی طرح جنرل مشرف بھی بھلا دیئے جانے والے ہیں اور چینی کے بحران کے ذمہ دار بھی اس وقت تک یاد رہیں گے جب تک چند بڑے لوگوں کی آپس میں افہام و تفہیم نہیں ہو جاتی ۔ جنرل مشرف کو ذرا سی گرمی پہنچی تو سعودی عرب سے میاں نوازشریف صاحب کو پیغام آ گئے کہ معاف کر دیجیئے اور میاں صاحب کی یکدم خاموشی سے لگتا ہے کہ انہوں نے جنرل مشرف کو معاف بھی کر ہی دیا ہے۔ کمال یہ ہے کہ قوم درمیان میں سے اس طرح نکلتی ہے … بے چاری نہ کبھی تھی، نہ ہے اور نا ہی کبھی ہو گی کبھی کسی کو قومی مجرم ہونے پر سزا نہیں ملی صرف نعرہ ’’بجتا ہے‘‘ اور جب ایک فریق دوسرے کے شکنجے میں آ جاتا ہے تو سب کچھ آپس میں ہی طے ہوتا ہے اور قوم کو یہ تک پتہ نہیں چلتا کہ طے کیا ہوا ہے؟ کبھی فلم کو زیادہ حقیقی روپ دیا جانا ہو تو زیادہ سے زیادہ چند ہرکارے پکڑ لئے جاتے ہیں یا کوئی چھوٹا موٹا نقاب پوش بے نقاب کر دیا جاتا ہے تاکہ اصلی والے مزید محفوظ ہو جائیں ورنہ یہاں تک بھی نوبت کم ہی لائی جاتی ہے۔ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ چینی کا بحران لانے والے کون ہیں لیکن نہیں پتہ تو قومی نظام، قومی دستاویزات، اور انتظامی کٹہروں کو نہیںپتہ۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے اور سوجھ بوجھ رکھنے والے ذرائع پر اعتماد کرتے ہوئے آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی کوئی اور نیا بحران آنے والا ہے جو چینی کے بحران کو پرویز مشرف کی طرح قصہ پارینہ بنا دے گا اور بحران کی کمائی کھانے والے دولتیں سمیٹ کر کسی غیر ملکی بنک میں … رکھیں گے اور ہم ہمیشہ کی طرح بدنصیبی کے کسی ایک دائرے سے نکل کر دوسرے دائرے میں گھومتے گھومتے اس سے بھی اگلے بحران میں جا داخل ہوں گے۔