ریلوے ہر دور میں سیاسی چراگاہ!

اسرار بخاری
سابق وزیر خزانہ جناب شوکت ترین سے کبھی علیک سلیک نہیں ہوئی۔ میں انہیں اتنا ہی جانتا ہوں جتنا کوئی عام پاکستانی ان سے آشنا ہو سکتا ہے البتہ غائبانہ تعارف ایک دیانتدار شخص کے طور پر ہوا جب وہ وزیر خزانہ بنے تو میرے ایک دوست نے کہا یہ شخص موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ اور کرپشن کے آگے بند نہ باندھ سکا تو مستعفی ہو جائے گا۔ سچی بات ہے رہبروں کے بھیس میں اتنے رہزن ملے کہ اعتبار کی ناﺅ ڈگمگاتی رہتی ہے چنانچہ اس پیش گوئی آمیز بات کو سنی ان سنی کر دیا مگر بعد ازاں جناب شوکت ترین کے کردار نے دوست کے دعویٰ یا پیش گوئی کی توثیق کر دی اور وہ واقعی موجودہ سیٹ اپ کا ساتھ نہ دے سکے جس نے کرپشن کی راہ میں آنے والی ہر مزاحمت کو چاروں شانے چت کر دیا ہے۔ جناب شوکت ترین کا حوالہ یوںآ گیا کہ وفاقی وزیر ریلوے اور اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے شکوہ کیا بلکہ شکایت کی ہے یا تاسف کا اظہارکیا ہے کہ جناب شوکت ترین وفاقی کابینہ کی طرف سے ریلوے کے منظور شدہ5 ارب روپے کا بیل آﺅٹ پیکج ریلیز کر دیتے تو انجن ناکارہ نہ ہوتے اور ان کی مرمت کر لی جاتی بادی النظر میں ریلوے دشمنی بلکہ ریلوے کے سستے سفر کا ذریعہ ہونے کے باعث عوام دشمنی لگتی ہے لیکن یقین کا رجحان یہ ہے کہ اگر شوکت ترین نے ایسا کیا ہے تو یہ ضرور پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔ پاکستان میں وہ کون سا شہری ہے جو اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہے کہ ریلوے ایوب خان کے آمرانہ دور سے سیاسی نوازشات کا ذریعہ بن گیا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تو گویا ریلوے پر بلاجواز اور بلاضرورت بھرتیوں کا ”ڈرون حملہ“ ہو گیا تھا ہزاروں کی تعداد میں پیپلزپارٹی کے جیالوں اور حامیوں کےلئے اس محکمہ کوہری چراہ گاہ بنا دیا گیا میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو صرف تنخواہ لینے کےلئے صرف ایک دن کیلئے جاتے تھے ان میں تین اخبار کے رپورٹرز بھی تھے جن میں ایک میرا ساتھی تھا جو آج کل لندن میں ہے۔ ریلوے ورکشاپس کے ملازمین تو ورکشاپوں کا مال شیر مادر سمجھتے تھے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے واچ اینڈ وارڈ کے عملہ کی ملی بھگت سے روز آئے ہزاروں کا مال ورکشاپوں سے نکل کر اونے پونے دام مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ بھکر سے تعلق رکھنے والا میرا ایک کلاس فیلو جو واچ اینڈ وارڈ میں انسپکٹر ہو گیا تھا رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر برطرف ہوا یہ کسی دیانت دار ریلوے آفیسر کی فرض شناسی کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ اسے مخالف گروپ کا ساتھ دینے کی سزا ملی تھی بغیر ٹکٹ سفر کا رجحان اور ٹرین کا گارڈز، ٹکٹ چیکروں کے ساتھ ریلوے پولیس کا اپنی جیبیں گرم کر کے بڑی تعداد میں لوگوں کو ٹکٹ سے کم پیسے لے کر سفر کرانا تو گویا ان کا پیدائشی حق ہے۔ بہر حال ریلوے کے حوالے سے یادوں کا دریچہ کھل گیا بات ہو رہی تھی جناب غلام احمد بلور کے بیان کی گذشتہ چھ دہائیوں میں ریلوے کو جتنے بیل آﺅٹ پیکج دیئے گئے ریلوے کی تنزلی کبھی ترقی میں تبدیل نہ ہو سکی کہ اس میں کرپشن، نااہلی، غلط بخشیوں، مختلف سطحوں پر اور مختلف انداز سے لوٹ مار نے ریلوے کو کنواں بنا دیا ہے جتنے مرضی بیل آﺅٹ پیکج ریلیز کئے جائیں جب تک اس میں سے کرپشن، بدانتظامی اور غلط بخشیوں کی صفائی نہ کی جائے گی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ جناب شوکت ترین نے 5 ارب روپے اس کنوئیں کی نذر کرنا مناسب نہیں سمجھا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...