نئے عدالتی سال کے آغاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری نے ریٹائرڈ ہونے والے ججوں سے کہا ہے وہ اپنا وقار خراب نہ کریں۔ ریٹائر ہونے کے دو سال تک سرکاری ملازمت قبول نہ کریں۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کی بے مثال کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ہم نے ڈر یا تعلقات سے بالا ہو کر فرائض منصبی کی بجا آوری کا حلف اٹھایا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے جج ریٹائر منٹ پر مناسب مراعات حاصل کرتے ہیں۔ انہیں دوبارہ ملازمت کی خواہش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے تلقین کی جو جج حضرات ایسے عہدوں پر موجود ہیں انہیں یہ مناصب چھوڑ دینے چاہئیں۔ آئین سے انحراف نے ہمیں پیچھے دھکیلا۔ جس کی کی بنا پر ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود سیاسی افراتفری کا سامنا ہے۔
حق یہ ہے محترم چیف جسٹس نے جسد قومی کو لاحق ایک بہت بڑے مرض کی جانب توجہ دلائی ہے۔ تیزی کے ساتھ ہمیں اندر سے کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ آئین مملکت کی بالا دستی کو کم از کم کاغذات کی حد تک یقینی بنانا انہی کا بڑا کارنامہ ہے جو اس قوم نے سرانجام دیا۔ جمہوریت کی بحالی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت تھی....لیکن یہ فرائض سر انجام دے لینے کے بعد ہم اس وقت تک حقیقی فوائد سے متمتع نہیں ہو سکتے جب تک جمہوریت کے تقاضے بطریق احسن پورے نہیں ہوتے۔ جناب چیف جسٹس نے رفقائے کار میں سے کچھ حضرات کو متنبہ کیا وہ چند سکوں کی نوکری اور اضافی مراعات کی خاطر اپنے وقار کو ٹھیس نہ پہنچائیں کیونکہ جج حضرات کو تو ریٹائر ہوتے ہی سرکار مدار کی جانب سے اتنی مراعات مل جاتی ہیں کہ انہیں مزید عرصہ ملازمت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ امر واقع یہ ہے کہ جس مرض کی پاکستان عدالت عظمیٰ کے قاضی القضا نے نشاندہی کی ہے وہ صرف ریٹائر ہونے والے جج حضرات تک محدود نہیں اس کی فاسد جڑیں پورے کے پورے بیوروکریٹک نظام کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین و حضرات ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے سے پہلے ہی وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔ ان کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ خواہ اس کی خاطر قواعدو ضوابط کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی جائیں۔ انہیں متعلقہ حکمرانوں کی جانب سے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
ان دنوں اخبارات میں اعلیٰ تعلیمی شعبے اور خاص طور پر میڈیکل کی تعلیم کے میدان میں ایسی ہی ایک شخصیت کا چرچا پڑھنے کو مل رہا ہے جو گزشتہ نو سال یعنی 2002ءسے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر کے عہدے پر براجمان چلے آ رہے ہیں جس کا موصوف کو کسی بھی قاعدے اور ضابطے کی رو سے کوئی حق حاصل نہیں۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے 108 ملازمین کو نہایت بے دردی کے ساتھ برطرف کیا۔ الزام کے مطابق اس نے جعلی ڈگری والے بیٹے اور ایک بھتیجے کی تقرری میں خصوصی اختیارات استعمال کئے۔ یہ صاحب میڈیکل کے شعبہ میں تعلیم اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ جنرل مشرف کے بہت قریب ہوتے تھے۔ پھر انہیںسابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اب اپنے خصوصی فن کو استعمال میں لاتے ہوئے موجودہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ جناب شہباز شریف Meritocracy پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن مشرف جیسے فوجی آمر کے کچھ چیلے چانٹے ہیں جو حیرت ہے بیورو کریسی میں اپنے دوستوں کی مدد سے پنجاب کی حکومت کی سے بھی من مرضی کے فیصلے حاصل کر لیتے ہیں۔ جناب وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو اس کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے اور آمریت کے پروردہ عناصر سے جس قدر جلد ہو اپنے صوبے اور حکومت کو نجات دلانی چاہیے۔
حق یہ ہے محترم چیف جسٹس نے جسد قومی کو لاحق ایک بہت بڑے مرض کی جانب توجہ دلائی ہے۔ تیزی کے ساتھ ہمیں اندر سے کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ آئین مملکت کی بالا دستی کو کم از کم کاغذات کی حد تک یقینی بنانا انہی کا بڑا کارنامہ ہے جو اس قوم نے سرانجام دیا۔ جمہوریت کی بحالی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت تھی....لیکن یہ فرائض سر انجام دے لینے کے بعد ہم اس وقت تک حقیقی فوائد سے متمتع نہیں ہو سکتے جب تک جمہوریت کے تقاضے بطریق احسن پورے نہیں ہوتے۔ جناب چیف جسٹس نے رفقائے کار میں سے کچھ حضرات کو متنبہ کیا وہ چند سکوں کی نوکری اور اضافی مراعات کی خاطر اپنے وقار کو ٹھیس نہ پہنچائیں کیونکہ جج حضرات کو تو ریٹائر ہوتے ہی سرکار مدار کی جانب سے اتنی مراعات مل جاتی ہیں کہ انہیں مزید عرصہ ملازمت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ امر واقع یہ ہے کہ جس مرض کی پاکستان عدالت عظمیٰ کے قاضی القضا نے نشاندہی کی ہے وہ صرف ریٹائر ہونے والے جج حضرات تک محدود نہیں اس کی فاسد جڑیں پورے کے پورے بیوروکریٹک نظام کے اندر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ خواتین و حضرات ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آنے سے پہلے ہی وقت کے حکمرانوں کے ساتھ ذاتی تعلقات قائم کر لیتے ہیں۔ ان کے احکامات پر عمل کرتے ہیں۔ خواہ اس کی خاطر قواعدو ضوابط کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی جائیں۔ انہیں متعلقہ حکمرانوں کی جانب سے مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
ان دنوں اخبارات میں اعلیٰ تعلیمی شعبے اور خاص طور پر میڈیکل کی تعلیم کے میدان میں ایسی ہی ایک شخصیت کا چرچا پڑھنے کو مل رہا ہے جو گزشتہ نو سال یعنی 2002ءسے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر کے عہدے پر براجمان چلے آ رہے ہیں جس کا موصوف کو کسی بھی قاعدے اور ضابطے کی رو سے کوئی حق حاصل نہیں۔ ڈاکٹر ملک حسین مبشر نے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کے 108 ملازمین کو نہایت بے دردی کے ساتھ برطرف کیا۔ الزام کے مطابق اس نے جعلی ڈگری والے بیٹے اور ایک بھتیجے کی تقرری میں خصوصی اختیارات استعمال کئے۔ یہ صاحب میڈیکل کے شعبہ میں تعلیم اور ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہ جنرل مشرف کے بہت قریب ہوتے تھے۔ پھر انہیںسابق وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اب اپنے خصوصی فن کو استعمال میں لاتے ہوئے موجودہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کا اعتماد حاصل کر لیا ہے۔ جناب شہباز شریف Meritocracy پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔ اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں لیکن مشرف جیسے فوجی آمر کے کچھ چیلے چانٹے ہیں جو حیرت ہے بیورو کریسی میں اپنے دوستوں کی مدد سے پنجاب کی حکومت کی سے بھی من مرضی کے فیصلے حاصل کر لیتے ہیں۔ جناب وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کو اس کی جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے اور آمریت کے پروردہ عناصر سے جس قدر جلد ہو اپنے صوبے اور حکومت کو نجات دلانی چاہیے۔