علامہ، ڈاکٹر ‘طاہر اُلقادری‘ آئندہ نومبر میں وطن واپس آ رہے ہیںاور ایک ” نسخہ ¿ انقلاب“ بھی ساتھ لارہے ہیں۔ 1999 ءمیں ڈاکٹر صاحب کے ایک عقِیدت مند نے‘---” قائدِ عوام سے قائدِ انقلاب تک“نامی کتاب لِکھی‘جو ہر خاص و عام میں تقسیم کئی گئی‘ لیکن انقلاب نہیں آیا۔2002 ءکے انتخابات میں ‘پاکستان عوامی تحریک نے بہت سے امیدوار کھڑے کئے لیکن‘ اکیلے ” قائدِ انقلاب“ ہی کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اِسے ” انقلاب دشمن قوتوںکی سازش“ قرار دِیا۔ قومی اسمبلی کی رُکنیت سے مستعفی ہوگئے اور پاکستان عوامی تحریک کو غیر فعال کر دیا۔
ڈاکٹر القادری کو مَیں نے پہلی بار 1993 ءمیں دیکھا ۔ اُن کا ایک بیان ‘اخبارات میں شائع ہوا۔ جِس میں کہا گیا تھا کہ--- ” مجھے خواب میں سرکارِ دو عالم نے بشارت دی ہے کہ میری عُمر آپ کی عُمر کے برابر 63 سال ہو گی“۔اِس پر مَیں نے کالم لِکھا کہ --- ڈاکٹر صاحب ! اگر آپ کو سرکارِ دو عالم نے بشارت دی ہے‘ تو آپ اپنے ساتھ ہر وقت کلاشنکوف بردار گارڈز کیوں رکھتے ہیں؟ کہ 63 سال کی عُمر تک آپ کو زندگی کی گارنٹی تو مِل گئی ہیں۔
تین چار دِن بعد ‘سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے ایک رشتہ دار فوت ہوئے تو وہ ‘مجھے اور اپنے دو اوردوستوں کو ‘تعزیت کے لئے سمن آباد (لاہور) لے گئے۔ وہاں ڈاکٹر صاحب موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا--- ” اثر چوہان صاحب! یہ آپ نے کسِ طرح کا کالم لِکھ دِیا ؟“--- میں نے عرض کِیا--- ڈاکٹر صاحب !اگر آپ کو واقعی سرکارِ دو عالم نے بشارت دی ہے تو‘ 63 سال کی عُمر تک تو آپ بے خوف و خطر زندگی بسرکریں۔اِس وقت بھی آپ کے ساتھ چار مسلح گارڈز موجود ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب بولے” پھر بات کریں گے“۔
اگست2001 ءمیں ” حِزبِ اللہ“ تنظیم کے سربراہ اور اسلام آباد کے ( سابق) انگریزی روز نامہ ” دی مسلم“ کے مالک‘ آغا مرتضیٰ پویا نے‘ ڈاکٹر صاحب کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔ مَیں بھی مدّعو تھا۔ اگلے روز آغا صاحب مجھے ‘ڈاکٹر صاحب کے ساتھ‘ پِکنک کے لئے کلّر کہار لے گئے ۔ دو ہفتے بعد ڈاکٹر صاحب ‘ غریب خانے پر‘ تشریف لائے۔ چند دِن بعد ڈاکٹر صاحب نے ایک خط مجھے بھجوایا۔ کھولا تو یہ میرا” تقرر نامہ“ تھا(جو ابھی تک ” تبرک“ کے طور پر میرے پاس محفوظ ہے)۔ ڈاکٹر صاحب ‘نے مجھے پاکستان عوامی تحریک کا مرکزی سیکرٹری پبلک افیئرز بنا دیا تھا۔ میں نے فون کِیا ‘ ڈاکٹر صاحب! میں تو عملی سیاست میں حصِّہ نہیں لیتا‘ آپ نے یہ تکلّف کیوں کِیا؟--- ڈاکٹر صاحب بولے ” پھر بات کریں گے۔“
9/11 کے بعد‘نومبر 2001 ءمیں‘ صدر جنرل پرویز مشرف ‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیو یارک گئے‘ مَیں میڈیا ٹِیم میں شامل تھا۔ اجلاس کے بعد مَیں نیو یارک میں ہی‘ اپنے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کے گھر منتقل ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسلام آبادمیں‘ میرے گھر سے‘ میر ے بیٹے کا ٹیلی فون نمبر لِیا۔مجھ سے کہاکہ” میرے کچھ مُرِید آپ سے مِلیں گے‘ اُن کے ساتھ بھی کچھ وقت گُزارلیں“۔ ڈاکٹر صاحب کے مُرِیدوں نے نیو یارک اور نیو جرسی میں‘ میرے اعزاز میں تقریبات منعقد کِیں( جِن کی تصویریں میرے پاس ہیں)مَیںدسمبر2001 ءکے اواخرمیںوطن واپس آگیا۔ اُس کے بعد میں ڈاکٹر صاحب سے کبھی نہیں مِلا۔
معروف شاعر اور صحافی تنویر ظہور نے مجھے ‘2000 ءمیں چھپی ‘نامور شاعر مظفر وارثی کی خود نوِشت” گئے دِنوں کا سُراغ“ تحفے میں دی ۔ مَیں نے کتاب پڑھی۔ ایک باب کا عنوان ہے---” ہم اور پاکستان عوامی تحریک“--- وارثی صاحب ”پاکستان عوامی تحریک“ کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رُکن رہے اور طاہرصاحب نے انہیں ” شاعرِ انقلاب“ کا خطاب دِیا تھا“۔ پھر وارثی صاحب ‘طاہرصاحب اور اُن کی عوامی تحریک سے الگ ہو گئے۔ مظفر وارثی لِکھتے ہیں....
” ڈاکٹر طاہر اُلقادری ‘ اپنی کرامات بڑے فخر سے بتایا کرتے....” میں چلتا تو‘ بھیڑیں چل پڑتِیں--- میں رُکتا تو رُک جاتِیں--- اہلیہ کو غُصّے میں اندھی کہہ دِیا۔ وہ واقعی اندھی ہو گئیں‘ پھر میری دُعا سے آرام آیا“--- وہ دھاڑیںمار مار کراپنے خواب بیان کِیا کرتے اور حضور کے بارے میں گُستا خانہ الفاظ کہہ جاتے ۔وہ اپنے خوابوں کی تعبیریں اپنی مرضی کی کرلیتے اور ہر مطلب کے آدمی کو نوید سُناتے کہ” خواب میں حضور نے اُن کی خدمات کو سراہا ہے“۔مظفر وارثی لِکھتے ہیں۔ ”ڈاکٹر صاحب ‘میاں نواز شریف کو منافق کہتے تھے‘ حالانکہ میاں صاحب ‘ انہیں اپنے کاندھوں پر بٹھا کر غارِ حِرا میں لے گئے تھے۔ سِول سیکرٹریٹ پنجاب میں‘ ڈاکٹر صاحب کی فائل کُھلی تھی۔ اُن کے تمام احکامات اُس پر درج ہوتے اور اُن پر عمل ہوتا تھا۔ طاہر صاحب نے بہنوں کے نام پلاٹ الاٹ کرائے۔سالے کو نائب تحصیلدار اور بھانجے کو اے ایس آئی بھرتی کرایا۔ میاں محمد شریف نے‘ انہیں نقد 16 لاکھ روپے دئیے۔ میاں محمد شریف۔طاہر صاحب کو‘شادمان سے اتفاق مسجد لے گئے اور اتفاق مسجد سے آسمان پر جا بٹھایا۔ گاڑی دی‘ مکان دیا اور 40 طالب علِموں کا سارا خرچ برداشت کرتے تھے“--- مظفر وارثی لِکھتے ہیں۔” طاہر اُلقادری کو امام خمینی بننے کا شوق تھا‘ لیکن انداز رضا شاہ پہلوی والے تھے۔ وہ پنجاب حکومت کو بدنام کرنے کے لئے عدالت گئے‘ لیکن صاحبِ عدالت مفتی محمد خان قادری نے اپنے فیصلے میں‘ طاہر اُلقادری کو جھنگ کے ادنیٰ خاندان کا سپُوت‘ مُحسن کُش‘ جھوٹا اور شُہرت کا بھوکا قرار دِیا“۔
مظفر وارثی صاحب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔مَیں اُن کے خیالات کو بِلا تبصرہ شائع کر رہا ہوں۔ڈاکٹر صاحب کے ” انقلاب“ کا منصوبہ یہ ہے کہ‘ پاکستان میں عام انتخابات نہ ہوںاورچار سال کے لئے عبوری حکومت قائم کی جائے۔ یہ حکومت ایک بڑاآپریشن کرے اور سیاست اور جمہوریت کے بدن سے سارے ناسُور نکال باہر کرے۔ ڈاکٹر صاحب نے خود کو انتخابی سیاست سے دُور رکھنے کا اعلان کِیا ہے۔ عبوری حکومت کا سربراہ کون ہو گا؟--- ڈاکٹر طاہر اُلقادری‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی‘ چِیف جسٹس افتخار محمد چودھری یا کوئی اور؟--- ڈاکٹر صاحب نے نہیں بتایا۔
ڈاکٹر طاہر اُلقادری کی تاریخ پیدائش -19 فروری 1951 ءہے۔ اگر وہ -19نومبر 2012 ءکو پاکستان واپس آجاتے ہیں تو اُن کی عُمر ہو گی61.... سال اور9 ماہ‘ یعنی 63 سال کی عُمر ہونے میں صِرف ایک سال 3 ماہ رہ جائیں گے۔ کیاڈاکٹر صاحب کو سرکارِ دو عالم کی طرف سے کوئی نئی بشارت دی گئی ہے کہ اُن کی عُمر میں توسیع کر دی گئی ہے؟ یا” میگا سٹار“ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین‘ ” اشکوںکی برسات“ کے خصوصی پروگرام میں‘ دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے‘ اُن کے لئے دُعا کریں گے؟ اگر ڈاکٹرصاحب کی قیادت میں ” انقلاب“ آجاتا ہے تو میں سِیدھا ‘ جناب مظفر وارثی کی قبر پر جا کرکہوں گا.... اے شاعرِ انقلاب‘ مظفر وارثی سُنو....!” شیخ اُلاسلام“ ڈاکٹر طاہر اُلقادری اپنی ”روحانی قوت“سے ”انقلاب“ لے آئے ہیں۔