پاکستان گذشتہ چار برسوں سے گندم کے بحران سے محفوظ تھا اور اس دوران گندم کی درآمد نہیں بلکہ برآمد ہوتی رہی اور ملکی ضروریات بھی پوری ہوئیں گویا غذائی تحفظ کا نظریہ یہاں پر پوری طرح لاگو رہا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چار سال کے بعد کچھ نہ کچھ ایسا ہوجاتا ہے کہ فضا گندم اور آٹے کے بحران سے گونج اٹھتی ہے ایسے عوامل پر غور کرنا ضرورت ہے کہ ایسا کیونکر ہوتا ہے اور اس سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے ہر شعبہ کے بارے میں بھارت کے کیا عزائم ہیں اور خاص طورپر زرعی شعبہ کو تباہ کرنا بھار ت کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ یہ اصل میں کمی کا تاثر دینے والی بات تھی حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا اس دوران پنجاب حکومت نے اپنی طرف سے خصوصی رمضان پیکیج کے تحت آٹے میں 3ارب کی سبسڈی دے کر اس مسئلہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی مگر گندم کے ذخیرہ اندوز اس دوران بھی متحرک رہے اور اُن کی خواہش تھی کہ 1100 روپے میں خریدی گئی گندم کا پرائیویٹ مارکیٹ میں نرخ1400 اور1450 روپے تک چلا جائے تاکہ وہ بھرپور منافع کما سکیں۔ کمی کا تاثر بذریعہ اخبارات اور TV چینلز دیا جاتا رہا اور فلور ملز ایسوسی ایشن کا حکومت سے مذاکرات سے مسلسل گریز اور مارکیٹ کو اونچا جاتا دیکھ کر بھی خاموشی اس بات کو ثابت کر رہی تھی کہ یہ ایک ملی بھگت ہے اور یہ ادارہ جس کا کام صارفین اور ملرز کا تحفظ ہے بھی مٹھی بھر ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ ملکر آٹے کے نرخوں کو800روپے فی تھیلہ 20کلو گرام سے زائد لے جانے کی نوید سنا رہا ہے اس کا بنیادی مقصد حکومت وقت کو گمراہ کرنا، مس گائیڈ کرنا اور لوگوں کیلئے سہولیات کو اُن سے دور کرنا تھا اور یہی موجودہ گندم اور آٹے کا بحران تھا چونکہ سرکاری گندم کا اجرا اُسی صورت میں ہوتا ہے جب مارکیٹ میں آٹے اور گندم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور ذخیرہ اندوزوں نے مارکیٹ کو اس سطح پر پہنچادیا کہ راولپنڈی،اسلام آباد میں گندم 1450 روپے فی من اور لاہور میں 1425 سے1430 روپے فی من تک فروخت ہونا شروع ہوگئی۔ راقم الحروف نے پنجاب کی حکومت کو رمضان میں ہی یہ مشورہ دیا تھا کہ ذخیرہ اندوزوں کی یہ سازش ہے اور سرکاری گوداموں میں گندم ذخیرہ کرنے کا بنیادی مقصد ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتا ہے لہٰذارمضان کے فوراً بعد ہی سرکاری گوداموں سے سرکاری گندم کا 1250 روپے یا 1275 روپے فی من میں اجرا کردیاجائے تاکہ مارکیٹ میں گندم اور آٹے کا نرخ غریب آدمی کی پہنچ سے دور نہ ہوجائے مگر سرکاری محکمہ خوراک بھی شاید ان لوگوں کی آواز پر چلتا رہا اور پالیسی سازوں نے جیسے مکمل ذخیرہ اندوزوں کا ساتھ دیا اور رمضان المبارک کے اختتام کے ڈیڑھ ماہ بعد گندم کے اجرا کیلئے کام شروع کیا جو کہ انتہائی نا مناسب اور موجودہ حکومت کے ساتھ بھی زیادتی تھی اور پھر یہ ظلم کیا گیا کہ پنجاب کے بجٹ میں 28 ار ب روپے کی سبسڈی لوگوں کو سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی مگر اسے کاٹ کر 18 ارب کردیا گیا جس سے گندم کا سرکاری اجرائی نرخ1330 روپے کردیا گیا اور ایسوسی ایشن کو ملی بھگت کے تحت آٹے کا سرکاری نرخ765 روپے فی تھیلہ 20کلو گرام منوالیا گیا جو گندم کے ریٹ کے لحاظ سے بالکل گھاٹے کا سودا ہے اور ایسوسی ایشن کی نا اہلی کی سزا عوام کو تو ملے گی ساتھ میں 95فیصد فلور ملز مالکان بھی اسے بھگتیں گے کیونکہ یکم اگست سے جو بجلی کارخانوں کو فراہم کی جارہی ہے وہ آٹھ روپے فی یونٹ کی بجائے 1450 روپے فی یونٹ کی ہوگی اور آئندہ اسے 21روپے فی یونٹ کرنے کا بھی مژدہ سنایا گیا ہے گویا 20 روپے فی تھیلہ صرف اس مد میں کم لیا گیا ہے بات تو پھر وہی ہوگئی کہ ذخیرہ اندوز جیت گئے اور عوام ہار گئی حقیقی طورپر آٹے کے نرخ800 روپے سے اوپر جا پہنچے ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کو بھی گندم کا ایک ہی نرخ سمری میں بھجوا کر کوئی چوائس نہیں دی گئی کہ وہ اس بارے میں بہتر فیصلہ کرسکیں اور سرکاری طورپر یہ جواز پیش کیاجاتا رہا کہ اگر گندم کا نرخ کم رکھتے تو ساری سندھ چلی جاتی میرے خیال میں یہ بالکل نامناسب بہانہ تھا کیونکہ سندھ گندم بھیجنے کا خرچہ سو روپے فی من سے زیادہ ہے موجودہ حکومت کو جہاں اور بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے وہاں مہنگائی اس کیلئے بہت بڑا خطرہ بن کر سامنے آئی ہے ذراءسوچئے کہ مسلم لیگ ن کے منشور اور میاںشہباز شریف کے وژن کے مطابق گندم کا سرکاری اجرائی نرخ1250 روپے ہوتا تو آٹے کا تھیلہ 725 روپے کا فروخت ہوسکتا تھا مگر دیکھنا یہ ہے کہ گیس نے 730 موجودہ حکومت کو اس شعبہ میں ناکام بنانے کی کوشش کی ہے جس میں بقول سرکاری اعدادو شمار کے گندم کی کوئی کمی نہ تھی اور پنجاب کے پاس 40 لاکھ ٹن گندم اب بھی موجود ہے۔اس پالیسی سے کن لوگوں کو فائدہ ہوا ہے اس کے تعین کیلئے میاں صاحب کو توجہ دینی چاہئے اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرکے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کام کرناچاہئے تاکہ جس شعبے میں عوام الناس کو فائدہ پہنچایاجاسکتا ہے اس میں تو پہنچایاجائے۔
گندم کا حالیہ بحران اور ممکنہ حل
Sep 14, 2013