جارج آر ویل نے کہا تھا ”سیاسی زبان اس لئے وضع کی گئی ہے کہ جھوٹ ‘ صداقت محسوس ہو اور قتل جائز قرار پائے“ آج اپنے ملک کے اندر بھی اور پھر گلوبل ویلیج کو بھی دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ”اخلاقی زبان“ ناپید ہو چکی ہے جبکہ ”سیاسی زبان“ گھر گھر بولی اور سنی جا رہی ہے اور اسی لئے جھوٹ صداقت محسوس ہو رہا ہے اور قتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا ہے .... تو ملک میں بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ”سیاسی زبان“ والے نظام کویقینی بنانا چاہئے یا اخلاقی زبان والے نظام کو یقینی بنانا چاہئے ؟ بظاہر ہر شخص یہی جواب دے گا کہ ”اخلاقی زبان“ والے نظام کو ہمیں یقینی بنانا چاہئے کہ جس کے تحت جھوٹ صداقت محسوس نہ ہو اور قتل جائز قرار نہ پا سکے مگر اس قسم کا ”جواب“ اس وقت محض نعرہ بازی کی حد تک رہ جاتا ہے کہ جب تک عملدرآمد نہ نظر آئے اور اگر ہم گلوبل ویلیج میں شامل دنیا بھر کے ممالک کیلئے اخلاقیات کی سطح پر انصاف سے کام لینے والے ادارے اقوام متحدہ کو دیکھیں تو وہ بھی ”سیاسی زبان“ میں ہی کلام کرتا ہے اور اسی لئے دنیا بھر میں جھوٹ خوب پھل پھول رہا ہے جبکہ ہمارے جیسے ممالک کے معاشروں میں بھی ایسی سیاسی زبان پنپ رہی ہے کہ جس نے اخلاقی زبان کو مات دیدی ہے اور اسلئے ہم دو مصیبتوں کا ایک ساتھ شکار بن رہے ہیں۔ ایک طرف ملک میں کئی طرح کی بلا¶ں نے سر اٹھایا ہوا ہے اور دوسری طرف مغرب اپنا کام کرتا چلا جا رہا ہے اور وہ بظاہر یہ سارے کام ”بندہ نوازی“ میں کر رہا ہے بقول داغ:
جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے
آپ بندہ نواز کیا جانیں
چند برسوں پہلے جب تعلیم‘ صحت ‘ انسانی حقوق ‘ عورتوں کے حقوق اور پھر ماں باپ کے نام پر دن منائے جانے کا شور شرابہ برپا کیا گیا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بھی سنی جا سکے گی اور دنیا ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کی پاسداری پر مبنی روشن خیال بنا دی جائیگی اور ایسی روشن خیال کہ جس میں تاریک گڑھوں کی طرف جانیوالے ہر راستے کو بند کر دیا جائیگا۔ مگر پھر سب نے دیکھا کشمیر کا مسئلہ وہیں کا وہیں ہے روس اور چیچنیا کے درمیان ٹینشن ہے‘ شمالی کوریا اور تائیوان کا مسئلہ ہے‘ امریکہ اور چین اکھاڑے میں ہیں۔ اور بھارت پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں سے باز نہیں آتا اور اب شام کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے اور صورتحال یہ ہے کہ سیاسی زبان تو بولی جا رہی ہے مگر اخلاقی زبان نہیں بولی جا رہی اور مسلمان ممالک تو کوئی بھی زبان بولنے پر تیار نہیں ہیں نہ سیاسی اور نہ دوسری زبان بول رہے ہیں۔ لہذا کیسے سوچا جائے کہ آنیوالے دنوں میں کسی بڑے سانحہ کا کوئی امکان نہیں ہے ؟ جبکہ خانہ جنگیاں ہوا¶ں میں سرسراتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں اور ان ظالم جنگوں کے آگے بڑھنے کے مجرم بہت سارے ممالک ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو افغانستان اور عراق میں نہ تو امریکی جارحیت نظر آتی اور نہ ہی امریکی سپاہیوں کے ہاتھوں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا کئے جاتے اور باقی رہی دنیا میں حقوق کی باتیں تو ایسے لمحات ہوتے ہیں کہ جب عورتوں کے حقوق بچوں کے حقوق اور پھر ماں باپ کیلئے دن منانے والے چپ کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ امریکہ میں ادارے مضبوط ہیں لہذا پالیسی نہیں بدلا کرتی چاہے صدر ابامہ ہی کیوں نہ آ جائیں کہ جس کو مسلمان کا بیٹا سمجھ کر سارے خوش ہو رہے تھے کہ وہ انسانیت کا علمبردار ہو گا امریکہ کے سابق صدر کلنٹن کا خیال تھا کہ امریکہ کی عظیم ترین جمہوریت دنیا کی جمہوریتوں کی پوری دنیا میں قیادت کریگی جبکہ صدر بش دنیا کو آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔ مگر کس سے آزاد کروانا چاہتے ہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا لیکن اتنے بڑے مقاصد کا نام لے کر دنیا کے کافی سارے ممالک میں دخل اندازی کرنیوالے امریکہ کو یہ معلوم بھی نہیں کہ ایک طرف جمہوریت کی قیادت کرنے کی بات کرنا اور دوسری طرف خود ہی غیر جمہوری حرکات کرنے کا تضاد نہ تو ڈھکا چھپا رہ سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے سارے لوگوں کو ہضم ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ اپنے نقطہ نظر سے ہٹ کر کسی اور کے نقطہ نظر کو سننے اور سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہوتا اور اسی لئے عالمی خلفشار کا خطرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے اس لئے اس دنیا کو جنگ و جدل سے محفوظ رکھنے کے لئے دوہرے معیارات کا خاتمہ بھی کرنا ہو گا اور اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اجارہ داری کے ذریعے نہیں بلکہ صداقت کے ذریعے اور عدل کے ذریعے امن قائم ہو سکتا ہے اور امریکہ کو اس دعوے سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا کہ دنیا بھر کے ہر ملک کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ ان ملکوں کی عوام نے کس طرح کا کھانا پینا ہے اور کس طرح کا لباس پہننا ہے اور انہیں کیا کرنا ہے ؟ کم از کم آج امریکہ جو کہ شام کی عوام کی محبت میں مبتلا ہو چکا ہے یہ سوچ لے کہ دنیا کے ممالک کے اندر رہنے والی عوام کے مسائل حل کرنے سے پہلے اس ملک کے عوام کی رائے تو معلوم کر لیا کرے کہ انہیں امریکہ کی کتنی محبت درکار ہے اور پھر مسلم ممالک کو کم از کم شرمندہ ضرور ہونا چاہئے کہ امریکہ شامی عوام کی محبت میں مبتلا ہو کر ان پر جنگ مسلط کرنے جا رہا ہے تو ایسے میں مسلم ممالک کی ”اخلاقی زبان“ کیا ہونی چاہئے ؟