اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت +ایجنسیاں + نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی دینے کے معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے چاروں صوبوں اور وفاق کو آئینی و قانونی تشریح کے لئے نوٹس جاری کر دیئے اور جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد نے قتل پر فی سبیل اللہ معافی کے معاملات پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ فی سبیل الللہ معافی دینے کا رواج چل نکلا ہے جو قرآنی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ آنکھیں بند کر کے صلح کرنے کے معاملے پر عدالت حکم کیوں نہ جاری کرے۔ قتل پر فی سبیل اللہ معافی فساد فی الارض ہے اس کے ذمہ دار ججز بھی ہیں۔ عدالت کا کام ہے کہ وہ فساد فی الارض کو روکے۔ فیصل آباد میں قتل کے معاملے پر ہم نے از خود نوٹس لیا۔ مخالف فریق نے بچہ اغوا کر لیا۔ خاندان نے مجبوری میں سمجھوتہ کر لیا۔ اسلام کے نام پر غلط کام کئے جا رہے ہیں اور قرآنی آیات کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے یہ کوئی جرم ہے یا معاشرے کی اصلاح کا کوئی ذریعہ ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قرآنی تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئی صلح پر سزا فسخ نہیں ہو سکتی۔ صلح کے طریقہ کار اور دائرہ کار کا تعین ہونا چاہئے۔ فی سبیل اللہ معافی کو رواج نہ بنایا جائے۔ ثناءنیوز کے مطابق جسٹس افتخار چودھری نے کہا ہے کہ قتل کے مقدمات میں فی سبیل اللہ معافی قانون کے ساتھ دھوکہ ہے۔ معمولی بات پر لڑائیاں اور قتل پر فی سبیل اللہ معافی ہو جاتی ہے۔ سارا کام اسلام کے نام پر کیا جاتا ہے یہ ایک جرم ہے، فی سبیل اللہ معافی کو رواج نہیں بنانا چاہئے۔ اسلامی تعلیمات کو نافذ کرنا ہے تو پوری طرح کریں، اسلامی تعلیمات کا غلط استعمال ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ عدالت قتل کے بعد صلح کے معاملہ پر بھرپور فیصلہ دے گی۔ عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سمجھوتے پر آنکھیں بند کر کے نہ بیٹھیں۔ شاہد حامد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ یورپی یونین کا دباﺅ ہے سزائے موت نہ دی جائے سابق صدر کی جانب سے شاید اسی لئے سزائے موت کو معطل کیا گیا۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ اس سال امریکی ریاست میں پانچ افراد کو سزائے موت دی گئی ہمارے ہاں معافی کے قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ بااثر افراد اپنے ملزمان کو معاف کروا لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں معافی کے قانون کا غلط استعمال ہوا۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا شاہ زیب قتل کیس میں شاہ زیب کے والدین نے شاہ رخ جتوئی سمیت دیگر ملزمان کو قصاص اور دیت کے قانون کے تحت فی سبیل اللہ معافی دے دی، بظاہر قصہ تمام ہوا لیکن ایسا نہیں، کیس جاری ہے کیونکہ ملک بھر کی نظریں اس کیس پر جمی رہیں اور اس کے انجام نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ سپریم کورٹ نے شاہ زیب قتل کیس سمیت دیگر قتل کے مقدمات میں راضی نامے کے اسلامی قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔