کراچی کے ایک سنگدل جاہل آدمی نے اپنی اچھی بیوی کو اس لئے چھوڑ دیا کہ اس کے بطن سے بیٹی کیوں پیدا ہوئی۔ خدا کی قدرت کہ دو تین برسوں میں بیٹی بیٹا بن گئی۔ ہسپتال میں کامیاب آپریشن کے بعد بچی مکمل طور پر ایک خوبصورت بچے میں تبدیل ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب بچہ ہمیشہ کے لئے کامیاب اور اچھی زندگی بسر کرے گا۔ پہلے بچی کا نام حفصہ تھا۔ اب وہ ابوبکر ہے۔ اس کی ماں کی یہ بات پسندیدہ تھی۔ پہلے اللہ نے بچی دی۔ میں نے اس کا شکر ادا کیا۔ بچیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ اب بچی بچہ بن گئی ہے تو اُس نے اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کیا۔ اللہ جس حال میں رکھے اس پر صبر شکر کا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور کوشش بہرحال جاری رکھنا چاہئے۔
عجیب بات کہ باپ تو بچیوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ بیٹیاں ہی دکھ سکھ میں ماں باپ کی زیادہ خدمت کرتی ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ عورت فطری طور پر ماں ہوتی ہے مامتا اس کا بنیادی وصف ہے۔ ایک چھوٹی سی بچی کے خمیر ضمیر میں بھی مامتا موجود ہوتی ہے۔ وہ بہن کے روپ میں بھی مامتا سے مالامال ہوتی ہے۔ چھوٹے بھائیوں کے ساتھ اس کا طرزعمل ماں جیسا ہوتا ہے۔ میرا تو یقین ہے کہ بیٹی بھی مامتا کا جذبہ رکھتی ہے۔ اپنے باپ کے لئے خاص طور پہ جذبہ چھپائے رکھتی ہے۔ وہ اپنی ماں کی بھی ماں ہوتی ہے۔ ماں سے بڑا تحفہ زندگی میں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ کوئی مرد جتنا بڑا ہو جائے۔ بلند مرتبہ حاصل کر لے تو بھی ماں کے نزدیک تو بچہ ہی ہوتا ہے۔ ماں ایسی دیوار ہے کہ جس کے ساتھ ٹیک لگا کر لوگ راحت محسوس کرتے ہیں۔ سارے دکھوں کے لئے آسودگی اور توانائی پاتے ہیں۔ ایک بڑا صوفی شاعر شاہ حسین کہتا ہے اور یہ بڑی مقبول شاعری ہے۔
مائے نی میں کینہوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
جدائیوں کا دکھ صرف ماں کے سامنے بیان کیا جا سکتا ہے۔ جدائی زندگی کو ایک اور زندگی بنانے کے لئے ضروری ہے۔ اس میں شرط ہے کہ یہ تجربہ اپنی ماں کے ساتھ شیئر کیا جائے۔
ترے سامنے بیٹھ کے رونا تے دکھ تینوں نہیں دسنا
دکھ بیان نہ بھی کیا جائے تو ماں جانتی ہے کہ میرا بیٹا کیا سوچتا ہے اور کیا چاہتا ہے۔ ماں کا حق ہے تو اپنے بچوں کی ماں کا بھی حق ہے؟ آقا و مولا رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمد نے فرمایا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ مسلمان ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ماں ماں ہی ہوتی ہے۔ اچھی ماں پوری قوم کو سنوار دیتی ہے۔ بیٹے کے لئے ماں ہی کافی ہے۔ وہ صرف ماں کو پہچانتا ہے۔ دکھ مصیبت میں خدا یاد آتا ہے یا ماں یاد آتی ہے۔
ایک بار مرحوم دانشور اشفاق احمد نے بابا جی بابا عرفان الحق سے پوچھا کہ آدمی گھبراتا ہے تو ماں کی گود میں جاتا ہے۔ اللہ کی گود کہاں ہے۔ صاحب عرفان و حکمت بابا عرفان الحق نے فرمایا۔ خدا کی گود تو یہ ہے جب آدمی سچے دل سے اپنی غلطیوں کے لئے توبہ کرتا ہے تو وہ اللہ کی گود میں ہوتا ہے۔ اُس کے لئے معافی ہی معافی ہے۔ ماں کے پاس بھی بروقت اپنے بیٹوں بیٹیوں کے لئے معافی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں اور پوری دنیا میں کچھ کچھ مائیں کبھی کبھی بیٹے اور بیٹی میں فرق کرتی ہیں تو وہ اپنے ساتھ زیادتی کرتی ہیں کہ وہ بھی بیٹی ہیں۔ بیٹی کے ساتھ باپ زیادہ محبت کرتا ہے۔
ہمارے ماحول میں بیٹی کے لئے جتنی قربانی باپ دیتا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ تو یہ باپ کون ہے کیا یہ انسان ہے جو بیوی پر الزام لگاتا ہے۔ بیٹی پیدا کرنے میں عورت کا کیا قصور ہے۔ یہ قصور ہے تو اس میں باپ بھی برابر کا شریک ہے۔ یہ اللہ کی قدرت میں بھی مداخلت ہے۔ یہ ایک لحاظ سے شرک ہے۔ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے بیٹی بنا دے جسے چاہے بیٹا بنا دے۔ بیٹی اور بیٹے میں کوئی فرق نہیں۔ آئیڈیل معاشرہ وہی ہو گا جہاں عورت مرد میں کوئی فرق نہ ہو گا۔ یورپ اور امریکہ میں عورت مرد سے کمتر نہیں ہے مگر وہاں بھی مردوں کی طرف سے زیادتیاں عام ہیں مگر وہاں بیٹی پیدا ہونے کے لئے عورت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاتا۔
مشرقی معاشرے میں ایسی سنگدلی کی مثالیں چند ایک ہیں۔ ورنہ بیٹی گھر کی روشنی ہوتی ہے۔ اب ایک شاعر اپنی نظم میں بیٹی سے مخاطب ہو کے کہتا ہے۔ ایک شہزادہ آئے گا۔ ہم اس کے ساتھ تمہیں رخصت کر دیں گے مگر میری خواہش ہے کہ اس کے سینے میں ایسا ہی دل ہو جو میرے سینے میں تمہارے لئے دھڑکتا ہے۔ کوئی مرد اپنی بیٹی سے تو پیار کرتا ہے مگر اپنی بیوی سے لڑتا جھگڑتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ میں بھی کسی کی بیٹی ہوں؟ رسول رحمت اپنی بیٹی حضرت فاطمہ الزہرا سے محبت کرتے تھے اور اُن کی عزت بھی کرتے تھے۔ وہ آتیں تو آپ کھڑے ہو جاتے۔ اپنی چادر زمین پر بچھاتے اور انہیں وہاں بٹھاتے۔ رسول کریم سے عشق کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنی بیٹیوں سے محبت کرو ان کی عزت کرو۔
اب تو بیٹیاں و طن عزیز کی شان بڑھانے میں بیٹوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ مادر ملت سے بے نظیر بھٹو تک سیاست صحافت فوج فضائیہ کے علاوہ ہر شعبے میں اُن کی ناموری کی دھوم ہے۔