ہریانوی زبان کے ایک شاعر نے کہا تھا....
”جھوٹ رے! اتنا بولیو، جتنا جھوٹ سوہائے
اسی من کا گھونگرو، ماچھر باندھے جائے“
یعنی اے دوست! جھوٹ اتنا ہی بولنا چاہئے، جتنا کہ مناسب ہو( میں سچ کہتا ہوں).... میں نے دیکھا کہ ایک مچھر 80 من کا گھنگھرو اپنے پاﺅں پر باندھ کر جا رہا ہے۔ یہ اس دور کا شعر ہے جب مچھر کی ڈینگی نسل کا ظہور نہیں ہوا تھا۔ شاعر نے ڈینگی کا جاہ و جلال اور کروفر دیکھا ہوتا تو اسے 180 من کا گھنگھرو بندھوا دیتا۔ شاعر حضرات عام طور پر بڑے لوگوں کی شان میں قصیدے لکھتے رہے ہیں۔ اب بھی لکھتے ہیں اور جو لوگ شاعر نہیں تھے انہوں نے اپنے اپنے ممدوح کی شان میں نثر میں قصیدے لکھے۔ یہ بھی میڈیا کی ایک ابتدائی شکل تھی۔ ہر زبان کے شاعروں اور عالموں نے اپنے اپنے دور کے بادشاہوں کی شان میں شعری اور نثری قصیدے لکھے۔ قصیدہ گو کا مبالغہ کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے اپنے دور کے ایران کے صفوی بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
”اے شہنشاہ بلند اختر، خدا را ہمتے
تا ببوسم، ہمچو گردوں، خاک ایوان شما“
یعنی اے بلند اختر شہنشاہ! خدا کے لئے مجھ پر بھی توجہ فرمائیں تاکہ جس طرح آسمان جھک کر تمہارے محل کی خاک کو بوسہ دیتا ہے میں بھی دوں! حافظ شیرازی کے کسی بھی مفسر نے یہ نہیں بتایا کہ صفوی بادشاہ ایران کے محل کی خاک کو کس نمبر کا آسمانی بوسہ دیتا تھا، لیکن نواسہ¿ ذوالفقار علی بھٹو۔ بلاول زرداری بھٹو نے اپنے والد محترم جناب آصف زرداری کی شان میں ایک غیر ملکی اخبار میں جو نثری قصیدہ لکھا کمال کر دیا، زرداری صاحب کے سارے قصیدہ گو شاعروں اور نثر نگاروں کی روزی پر لات مارنے کا پورا پورا اہتمام کر دیا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو کچھ عرصہ تک محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنے والد محترم کے لئے کی گئی نثری شاعری بھی عام ہوئی تھی، جب انہوں نے کہا کہ ”مجھے چاند میں پاپا نظر آتے ہیں“۔ کئی عقیدت مندوں نے بھی بھٹو صاحب کو ”پیر بابا“ مشہور کرنے کی کوشش کی۔
بلاول بھٹو نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ” میں ایک بیٹے یا پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک پاکستانی اور تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے بیان کر رہا ہوں کہ ”میرے والد جناب آصف علی زرداری پاکستان کے عظیم ترین اور کامیاب ترین قائد ہیں اور ان کی عظمت کو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا“۔ اس سے قبل 23 دسمبرکو وزیراعظم کی حیثیت سے راجا پرویز اشرف جب ایک دن کے دورے پر سرگودھا گئے تھے تو وہاں میڈیا کو بتایا تھا کہ ”صدر زرداری کا پانچ سالہ دور پاکستان کا سنہری دور ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں SWEEP کرے گی“۔ وزیراعظم راجا کے اس بیان کی خبر اسلام آباد کے صرف ایک اخبار میں دو کالمی چھپ سکی تھی۔ کسی نے پڑھی کسی نے نہ پڑھی، ووٹروں کو پتہ ہی نہیں چل سکا کہ ”صدر زرداری کا پانچ سالہ دور پاکستان کا سنہری دور تھا۔ چنانچہ انتخابات میں ”SWEEP“ مسلم لیگ ن اور اس کے بعد عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے کیا۔
بلاول بھٹو زرداری کو ”قصیدہ گوئی کا فن“ وراثت میں اپنے نانا جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ملا ہے۔ صدر سکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958ءکو جب مارشل لاءنافذ کر کے بھٹو صاحب کو مارشل لائی کابینہ میں شامل کیا تو جناب بھٹو نے صدر سکندر مرزا کو ایک خط میں لکھا ”جناب صدر! آپ قائداعظمؒ سے بھی بڑے لیڈر ہیں“۔ دروغ بر گردنِ راوی کہ جب 20 دن بعد جنرل محمد ایوب خان نے صدر سکندر مرزا کو معزول کر کے جلاوطن کر دیا تھا تو وہ لندن جاتے وقت بھٹو صاحب کا وہ خط اپنے ساتھ لے جانا نہیں بھولے تھے۔ بھٹو صاحب کی قصیدہ گوئی کا دوسرا دور جنرل ایوب خان کی کابینہ میں شمولیت کے بعد شروع ہوا جب انہوں نے صدر ایوب خان کو (جو فیلڈ مارشل بھی بن چکے تھے)۔ ”ایشیا کا ڈیگال“ اور ”غازی صلاح الدین ایوبی ثانی“ مشہور کیا۔
جناب آصف علی زرداری کے والد محترم 1970ءمیں جناب بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ پھر خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ صدر جنرل ضیاءالحق نے 1985ءمیں غیر جماعتی انتخابات کرائے تو بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن جناب حاکم علی زرداری اور جناب آصف علی زرداری نے نواب شاہ سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے انتخاب لڑا۔ دونوں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے جناب آصف زرداری کی شادی واقعی اُن کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ وہ بھٹو صاحب کے جاں بحق ہونے کے 8 سال بعد ان کے ”روحانی فرزند“ بن گئے اور جناب حاکم علی زرداری ”روحانی برادر“ پھر بڑے اور چھوٹے زرداری صاحبان نے بھٹو صاحب کو ”شہید“ بھی کہنا شروع کر دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں اپنے ”شوہرِ نامدار“ کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دیا، لیکن اُن کے قتل کے بعد موصوف پارٹی کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ یہ اُن کی بہت بڑی کامیابی تھی اور نان گریجویٹ ہونے کے باوجود صدر پاکستان منتخب ہو کر جناب زرداری نے پاکستان کی تاریخ میں نام پیدا کر لیا، ایک کامیاب ترین انسان اور سیاست دان کی حیثیت سے ”اُن کی عظمت کو تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا“ 26 اگست کو ایوان صدر میں صحافیوں سے الوداعی ملاقات میں بحیثیت صدر جناب زرداری نے بھی کہا تھا ”میں عزت سے رخصت ہو رہا ہوں اور میں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ ہم اخبارات کی ”HEAD LINES“ بنانے نہیں بلکہ تاریخ بنانے نکلے ہیں“۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے آج سے 48 سال پہلے ستمبر کے ہی مہینے میں۔ 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کے لئے اہلِ پاکستان ایک ہزار تک بھی لڑنے سے دریغ نہیں کریں گے“۔ اہل پاکستان نے بھٹو صاحب کو ”ہیرو“ سمجھ لیا تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کی آزادی کے لئے کچھ نہیں کر سکے اور نہ ہی انہوں نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا وعدہ پورا کیا۔ اس لحاظ سے تاریخ میں اُن کا نام تو لکھا گیا اور جناب زرداری نے تو صدارت کا منصب سنبھالتے ہی کہا تھا کہ ”کیوں نہ مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے ”FREEZE“ کر دیا جائے؟“ زرداری صاحب کا نام تاریخ میں ضرور آئے گا کہ انہوں نے کم از کم 5 سال تک تو مسئلہ کشمیر منجمد رکھا اور غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا تو موصوف نے وعدہ ہی نہیں کیا۔ بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ 70 ہزار غریب عورتوں اور بیواﺅں کو ہر ماہ ایک ہزار روپے ماہوار وظیفہ دینے سے زرداری صاحب کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے تو بلاول بھٹو بھی قصیدہ گو کی حیثیت سے نامور ہو جائیں گے۔ مشقِ سخن جاری رکھیں!