پاک فوج نے حالیہ دنوں میں کئی معرکے مارے، ان کی تفصیل بتانے کے لئے میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ میڈیا کے سامنے آئے تو ان پر سیاسی سوالوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ میر ا بھی خیال یہی تھا کہ میں فوج کے معرکوں کی تفصیل میں جائوں گا اور ان کی اہمیت کو اجاگر کروں گا مگر رہنے دیجئے اس قصے کو جسے کوئی سُننے کے موڈ میںہی نہیں۔ ہمارے میڈیا کا وہی حال ہے جو یوسف زلیخا سُننے والے مجمع کا تھا کہ ساری رات یہ قصہ سُنا اور اگلی صبح اُٹھ کر پوچھنے لگا کہ زُلیخا مرد تھی یا عورت۔ سب سے بڑا سوال ہے اسکرپٹ کس نے لکھا، باجوہ صاحب نے اس کا ایک جواب دیا کہ ان سے جا کر پوچھ لیجئے جو اسکرپٹ کی بات کرتے ہیں۔ مگر مجھے معلوم ہے کہ اسکرپٹ کس نے لکھا اور میں اس کی ساری تفصیل میں جاتا ہوں۔
اسکرپٹ کا پہلا سین اس نے لکھا جس نے ماڈل ٹائون میں قادری کے گھر کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کے لئے آدھی رات کو ایکشن کیا اور پولیس کو سیدھی گولیاں فائر کرنے کا حکم دیا جس سے بارہ خواتین اور مرد موقع پر ڈھیر ہو گئے اور اَسّی نوے افراد کو سینوں اور سر میں گولیاں مار کر اپاہج بنا دیا گیا۔ دوسرا سین اس نے لکھا جو جائے حادثہ سے صرف چار گلیاں پیچھے اپنے گھر میں موجود تھا اور جس نے اعلان کیا اسے اس سانحے کا علم میڈیا کی رپورٹوں سے ہوا اور وہ بھی اگلی دوپہر کو۔ اور یہ دعویٰ وہ شخص کر رہا ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ پورے صوبے میں اس کے حکم کے بغیر پتہ تک نہیں ہل سکتا۔ تیسرا سین اس نے لکھا جس نے اس وحشیانہ قتل و غارت کا پرچہ تک درج نہ ہونے دیا۔ ایک ذیلی سین ان کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں نے لکھا جنہوں نے قادری کو طعنے پہ طعنہ دیا کہ نوابزادہ نصراللہ خاں کو ایک لاش مل جاتی تو وہ حکومت کا دھڑن تختہ کر دیتا تھا۔ مگر تمہارے پاس ایک درجن لاشیں ہیں اور صرف ان کانوحہ پڑھنے تک محدود ہو۔ ایک سین ان لوگوں نے لکھا جو قادری کے جلوس کو لاہور سے نکلنے سے روک سکتے تھے مگر انہوںنے اسے اسلام آباد تک جانے دیا اور وہاں قدم بقدم آگے بڑھنے کی ا جازت دی حتی کہ اس نے پارلیمینٹ کا گھیرائو کر لیا اور پی ٹی وی پر قبضہ جمانے میںکامیاب ہو گیا، فوج نے اس اسکرپٹ کے رنگ میں بھنگ ڈالی اور ٹی وی میں گھسے ہوئے ہجوم کو انگلی کے ایک اشارے سے باہر نکال دیا۔
ایک سین محکمہ اطلاعات کے ان عناصر نے بھی لکھا جن کو میںنے ٹی وی پر قبضے کے روز بتایا کہ میں نے قابض ہجوم میں سے ایک شخص کو پہچان لیا ہے اور وہ عوامی تحریک کا چیف آرگنائزر ہے، مجھے جواب میں بتایا گیا کہ میری اطلاع عرفان صدیقی جو ڈپٹی پرائم منسٹر بنے بیٹھے ہیں، تک پہنچا دی گئی ہے مگر انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی، میں اس کی وجہ اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ٹی وی پر قبضہ کرنے والے قادری کے بندے تھے تو یہ پراپیگنڈہ کرنے کا بہانہ ختم ہو جاتا کہ فوج نے ہی ان کو بھیجا اور اسی کے اشارے پر یہ لوگ باہر نکل گئے۔ میں نے یہ اطلاع نوائے وقت کے کالم میں بھی لکھی مگر حکومت کے کسی بڑے سے چھوٹے اہلکار نے ا سے درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اب اسلام آباد کا آئی جی پولیس کارروائی ڈالنے کے لئے بعض تصاویر شائع کر رہا ہے کہ انہیں پہچاننے والوں کو ایک لاکھ کا انعام دیا جائے گا۔ اگر ان کی نیت ہوتی کہ اصل مجرموں تک پہنچنا ہے تو وہ میری بات پر بھی دھیان دیتے۔
اسکرپٹ لکھنے والے سینکڑوں کی تعداد میں ہیں، کس کا ذکر کیا جائے اور کس کا نہ کیا جائے۔ دھرنا دیا تھا قادری ا ور عمران نے، ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے تھے تو قادری اورعمران مگر نواز شریف کو ان کے نادان دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس دھرنے کے پیچھے فوج ہے، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بُلا لیا جائے جہاں فوج کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے، ان میں اچکزئی، فضل الرحمن اور اے این پی کے لوگ پیش پیش تھے، یہ سب فوج پر براہ راست حملے کر رہے تھے۔ حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے ہر شخص یہی رٹ لگا رہا تھا کہ جمہوریت بچانے کے لئے ہم متحد ہیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ پیغام فوج کو جا رہا ہے حالانکہ انہیں اپنا پیغام قادری ا ور عمران کو دینا چاہئے تھا۔ فوج کو بدنام کرنے کے لئے قادری ا ور عمران کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کو بھی استعمال کیا گیا۔ ایوان کے اندر شعلے اُگلے جا رہے تھے کہ فوج کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کرے۔ آخر فوج کو بتانا پڑا کہ یہ مداخلت خود وزیراعظم کی درخواست پر کی گئی ہے اور وزیر داخلہ کو کہنا پڑا کہ یہ ان کی منظوری سے ہوا ہے۔
میڈیا کے مشیر پیچھے رہنے والے نہیں تھے، ہر ٹاک شو میں اینکر یہی پوچھ رہے تھے کہ یہ اسکرپٹ کس نے لکھا، سیدھا جواب تو کسی نے نہ دیا، نہ دینا تھا نہ کسی کے پاس تھا مگر ابہام کو برقرار رکھ کر فوج کو بدنام کرنے کی کوشش جاری رہی حتیٰ کہ ایک ٹاک شو میں کسی نے مطالبہ داغ دیا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی جگہ اس کے جانشین کا اعلان کر دیا جائے، اس پر ایک دل جلے نے کہا کہ ا یسے مطالبے وہ کر رہے ہیں جو نئے نئے کروڑ پتی بنے ہیں۔ میڈیا میں نئے کروڑ پتیوں کی لسٹیں چھپ رہی تھیں جو مبینہ طور پر حکومت کے اشارے پر فوج کے خلاف بلیم گیم کا حصہ تھے۔ اب تو ایسے کالم نویسوںکی لسٹیں بھی آ رہی ہیں جو کروڑ کے بجائے دس لاکھ پر بِک گئے ہیں۔ مغلیہ دور میں دس ہزاری، پنج ہزاری کے منصب ہوتے تھے۔
فوج اس سارے پراپیگنڈے کا جواب دینے سے قاصر تھی، وہ ایک ایسی جنگ میں الجھی ہوئی تھی جس میں دہشت گردوں نے بارہ برسوںمیں ستر ہزار بے گناہوں کا خون پی لیا تھا اور اس خونیں کھیل کا کوئی انجام بھی نظر نہیں آ رہا تھا، فوج نے ضربِ عضب کے نام سے فائنل اٹیک شروع کیا، وہ اس خونیں کھیل کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے پر تُلی ہوئی تھی، اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی ہوئی تھی، وہ چاہتی تھی کہ قوم اس کی حمایت کرے، اس کی پُشت پر کھڑی نظر آئے، اس کے لئے حوصلہ بنے۔ مگر ادھر تو عالم یہ تھا کہ جوتیوںمیں دال بٹ رہی تھی۔
دھرنوںمیں فوج کو ایک محدود ٹاسک دیا گیا، دارالحکومت کی پانچ عمارتوں کی حفاظت ، فوج نے یہ فریضہ نبھایا اور اسی کی وجہ سے پارلیمنٹ کے اجلاس کا انعقاد ممکن ہوا۔ ورنہ اچکزئی اور فضل الرحمن کو تقریروں کا شوق پورا کرنے کے لئے جاتی امرا کے محلات کا رُخ کرنا پڑتا۔ پاکستان ٹی وی کی عمارت کی حفاظت کا فریضہ فوج کو نہیں سونپا گیا، شاید کوئی ڈرا مہ رچانے کے لئے۔
ایک سوال یہ ہے کہ عوام فوج کی عزت کیوںکرتے ہیں، پولیس کی کیوں نہیں کرتے۔ اس کا جواب گلی محلے کا ہر شخص دے سکتا ہے اور یہ بھی یاد رکھئے کہ پولیس حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر رہی ہے، اس کو کسی نے بُرا بھلا نہیں کہا مگر فوج نے حکومت کے کسی حکم کو ماننے سے انکار نہیں کیا، پھر بھی اسے صلواتیں سُنائی جا رہی ہیں اور آخری بات یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ فوج کے اندر ایک چین آف کمانڈ ہے، آرمی چیف کے تحت پوری فوج متحد ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اوپر کے حکم کی سرتابی کرے، مگر دھرنے کے سامنے کتنے ایس پی، ڈی آئی جی بدلے جا چکے ہیں جنہوں نے ہجوم سے نمٹنے سے انکار کیا ہے۔ یہ اسکرپٹ کا آخری پارٹ ہے اور آپ اسے کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔
اسداللہ غالب