معاویہ کے ساتھی خود کو عسکریت پسندی جاری رکھنے والوں سے علیحدہ رکھ سکتے ہیں

لاہور (جواد آر اعوان/ دی نیشن رپورٹ) کالعدم تحریک طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ معاویہ کا اعلان انکے کچھ ساتھیوں کو ان عناصر سے الگ کرسکتا ہے جو ابھی تک ریاست کیخلاف عسکریت پسندی جاری رکھنا چاہتے ہیں تاہم پنجاب میں اس اعلان کے حقیقی اثرات مرتب ہونگے، جب اس کالعدم طالبان چیپٹر سے جڑے فرقہ وارانہ گروپ مستقبل میں اپنی کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کرینگے۔ عصمت اللہ معاویہ نے مسلح جدوجہد کی مذمت کرنے اور پرامن طور پر شریعت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ سرکردہ سکیورٹی سروسز نے معاویہ کے اس اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اگر تمام ارکان، ہمدرد اور معاویہ سے جڑے سلیپر سیل خصوصاً فرقہ وارانہ گروپس اس اعلان سے متفق ہوئے تو پنجاب میں مکمل امن قائم ہوسکتا ہے۔ انکے مطابق کالعدم پنجابی طالبان کے ارکان اور اس سے منسلک گروپ عسکریت پسند کارروائی سے خود کو علیحدہ کر سکتے ہیں مگر وہ اس بات کی مکمل ضمانت کے ساتھ اس چیپٹر کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے جب تک اس سے منسلکہ گروپ اس حوالے سے اعلان نہیں کرینگے اور رسمی طور پر حکام کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے۔ پنجابی طالبان نے زیادہ تر کارروائیاں علاقوں میں کیں مگر فرقہ وارانہ گروپوں نے کارروائیاں پنجاب میں کی ہیں۔ پنجاب کی زیادہ تر دہشت گردی کا فرقہ واریت سے تعلق ہے۔ سکیورٹی سروسز کے ارکان کو توقع ہے کہ بہت جلد تین یا چار گروپ بھی کارروائیاں ختم کرنے کا اعلان کرینگے تاہم وہ شاید مقامی ماحول کے مطابق اس طرح کا اعلان نہ کرسکیں۔ ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ معاویہ نے یہ اعلان آپریشن ضربِ عضب سے خود کو بچانے کیلئے کیا اور اگر اسے دہشت گردی کیلئے ضروری انفراسٹرکچر مہیا ہوتا ہے تو شاید وہ پھر اپنی پرانی کارروائیاں شروع کردیگا۔ اس حوالے سے آئی ایس آئی پنجاب کے سابق کمانڈر بریگیڈیئر (ر) غضنفر کا کہنا ہے کہ معاویہ اگر اپنی باتوں میں سچا ہے تو اسکا دوسروں پر اخلاقی اثر مرتب ہوگا تاہم انٹیلی جنس حکام کو معاملات پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ انٹیلی جنس حکام اپنے مقاصد میں کامیاب رہے ہیں۔ حافظ گل بہادر اور دوسرے بھی خود کو کارروائیوں سے الگ کرچکے ہیں۔ انکا کہنا ہے حکومتی رِٹ کے قیام کیلئے معاویہ اور دوسرے سخت گیر عسکریت پسندوں کو عدالتی کٹہرے میں لانا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن