عزت نفس کی قربانی اور ملک لوٹنے والے

چودھری اعتزاز احسن کے الزامات کے جواب میں وزیر داخلہ چودھری نثار نے اپنی زندگی کی مختصر ترین پریس کانفرنس کے دوران جس تحمل و بردباری، فہم و تدبر اور عقل و دانش کا مظاہرہ کیا ہے اس پر چودھری نثار کے مخالفین بھی انہیں خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ وزیر داخلہ کے پیش نظر اگر پاکستان کی موجودہ نازک ترین صورتحال اور جمہوریت کا مستقبل نہ ہوتا تو شاید وہ اپنی عزت نفس اور انا قربان کرکے درگزر کرنے کا راستہ اختیار نہ کرتے۔ چودھری نثار کی تنک مزاجی، جوشیلا پن اور غصہ بہت مشہور ہے اور وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں قوت برداشت بہت کم ہے اور وہ کبھی بھی اپنے اوپر اس حوالے سے قرض نہیں رہنے دیتے جب چودھری اعتزاز احسن پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ کیخلاف انتہائی سخت لب و لہجہ میں تقریر کر رہے تھے تو چودھری نثار غضب ناک آنکھوں سے اپنے سیاسی حریف کو دیکھ رہے تھے، چودھری اعتزاز نے چودھری نثار کے مرحوم بھائی کو بھی اپنے الزامات کی زد پر رکھ لیا مگر چودھری نثار نے اپنی پارٹی ڈسپلن کے تحت اور اپنے مزاج کے بالکل برعکس اپنے غم و غصہ کو قابو میں رکھا۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کو بھی صرف ایک نکتے تک محدود رکھا کہ پارلیمنٹ میں چودھری اعتزاز نے ان کیخلاف جو تقریر کی ہے اس تقریر کو ایک ایف آئی آر تصور کر لیا جائے اور وجیہہ الدین اور طارق محمود جیسے اچھی شہرت رکھنے والے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن ان تمام الزامات کی تحقیق کر لے جو چودھری اعتزاز نے چودھری نثار کیخلاف عائد کئے ہیں۔ اگر ان الزامات میں سے ایک فیصد الزام بھی سچ ثابت ہو جائے تو اس صورت میں چودھری نثار وزارت سے ہی نہیں بلکہ مستقل طور پر سیاست بھی الگ ہو جائینگے۔ چودھری نثار نے اپنی تقریر میں کچھ ایسے دعوے بھی کئے ہیں جن کی تصدیق یا تردید ہمارا منصب نہیں۔ تاہم انکے اگر یہ دعوے درست تسلیم کر لئے جائیں کہ میرا ضمیر مفادات کے تابع کبھی نہیں رہا، میں نے زندگی میں کبھی حرام مال کی طرف نہیں دیکھا، تو پھر ہمیں یہ کہنا پڑیگا کہ چودھری نثار غالباً پاکستان میں ایسی خصلت اور ایسی سیرت وکردار کے واحد سیاست دان ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دان قومی سرمائے کی بھی ایسے ہی حفاظت کریں جیسی حفاظت وہ اپنے ذاتی اثاثوں اور ذاتی مفادات کی کرتے ہیں تو ملک میں کرپشن کے تناسب کو بہت نیچے لایا جا سکتا ہے اور ہمارا پیارا وطن چند ہی سالوں میں ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ ہی یہ ہے کہ ہم دیانت دار اور باصلاحیت سیاسی قیادت سے محروم ہیں۔حکومت خود کو درپیش خطرات سے پہلے ضرور نمٹ لے مگر ملک و قوم کا خزانہ لوٹنے والوں کا اگر محاسبہ نہیں ہوتا تو قوم یہ سوچنے میں حق بجانب ہو گی کہ کرپشن کے حمام میں میں سارے سیاستدان ہی ننگے ہیں آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کی حفاظت کیلئے حکومت اور حزب اختلاف کا متحد ہونا یقیناً ایک نیک شگون ہے۔ مگر کیا بدعنوان سیاست دانوں کیخلاف بھی ایک متحدہ محاذ نہیں بنایا جا سکتا اور کیا قومی معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دینے والی بڑی سطح کی کرپشن کے خلاف کوئی مشترکہ حکمت عملی تیار نہیں کی جا سکتی؟ بااثر اور بارسوخ سیاست دانوں میں چاہے کتنی بھی خرابیاں کیوں نہ ہوں اور انہوں نے اگر بڑی سے بڑی بھی کرپشن کی ہو تو ان کا کبھی بھی محاسبہ نہیں ہوتا۔اسکی وجہ غالباً یہ ہے جتنے بھی بڑے کرپشن کے مگرمچھ ہوتے ہیں وہ سارے مارشل لا حکومتوں کا حصہ بن جاتے ہیں اور جو سیاستدان آئین، پارلیمنٹ، آزاد عدلیہ اور جمہوریت جیسی ’’فضولیات‘‘ کی حمایت سے تائب ہو کر فوجی حکومتوں کے وزیر اور سفیر بن جاتے ہیں پھر ان کا احتساب کون کریگا۔آخر کیا وجہ ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ ایک سو کنال پر مشتمل عالیشان محل تعمیر کرکے کسی حکمران کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص تین چار ارب روپے کا تحفہ کسی بھی شکل میں ایک صدر یا وزیراعظم کو دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ یقیناً کوئی ناجائز مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔اگر کوئی سرکاری بنک یا دیگر کوئی سرکاری ادارہ حکومت کی ملکیت سے نکال کر اصل مالیت کے مقابلہ میں معمولی قیمت لیکر نجی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے تو ایسا عمل یقیناً کرپشن کے نتیجے میں کیا جاتا ہے مگر ایسی بڑی سے بڑی کرپشن کرنے والوں کا احتساب کسی بھی دور میں کیوں نہیں ہوتا۔ وہ سارے الزامات جو دن رات سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف عائد کرتے رہتے ہیں اگر ان سب الزامات میں سے آدھے بھی سچے ہوں تو ملک کا شاید ایک سیاست دان بھی سزا سے نہیں بچ سکتا دکھ کی بات یہ ہے کہ انقلاب اور آزادی کی بات کرنیوالی دونوں جماعتوں کی صفوں میں بھی وہی سیاست دان گھسے ہوئے ہیں جن کے دامن پر بدعنوانی کے کئی الزامات ہیں۔ طاہرالقادری تو جن ہوائی منصوبوں کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں وہ قابل عمل ہی نہیں۔ ویسے بھی جس جماعت کے ’’انقلابی پروگرام‘‘ کیلئے چودھری برادران اپنا سرمایہ پانی کی طرح بہا رہے ہوں اس جماعت سے عوام کیا امید رکھ سکتی ہے۔ رہی عمران خان کی سیاست تو جس سیاست دان کو شیخ رشید جیسے لوگ ورغلانے میں کامیاب ہو جائیں اس سیاست دان کے مستقبل کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ اس ساری صورتحال میں بے چارے عوام کدھر جائیں۔
آخر میں ایک گزارش عمران خان اور طاہر القادری سے بھی کہ اگر انکے دلوں میں پاکستان کے عوام کے لئے تھوڑی سی بھی ہمدردی ہے تو اب وہ اپنے دھرنے چھوڑ دیں اور سیلاب میں ڈوبے ہوئے عوام کی امداد کیلئے میدان میں نکل پڑیں ورنہ تو مستقبل کی سیاست میں بھی ان کا کردار ختم ہو جائیگا۔ سیاست تو ہوتی رہے گی مگر جو لوگ اور جو رہنما اس مشکل وقت عوام کے کام نہ آئے کل وہ عوام کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن