چند روز پہلے کی بات ہے لاہور کے ایک مسیحی چرچ کی ایک مذہبی تقریب میں محترمہ مریم نواز مہمان خصوصی تھیں ان کی گفتگو بھی اچھی اور اثر انگیز تھی مگر مذہب پر سیاست غالب تھی۔ مسلمانوں کی تاریخ کا المیہ بھی یہی ہے ایک برطانوی مستشرق مسٹر میکڈانلڈ نے اپنے مطالعہ اسلامی تاریخ کا نچوڑ ایک جملے میں پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے ہر مذہبی فرقہ کا پس منظر سیاست اور حکومت رہی ہے۔ مگر میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام اور سیاست کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسلام پر سیاست کو سوار کر دینے کا قائل نہیں یعنی سیاست سے اسلام کا حلیہ نہیں بگاڑنا چاہئے۔ مسلمان سیاستدان کو اسی طرح بلند اخلاق ہونا چاہئے جس طرح دنیا کے ہر جمہوری آئین کی رو سے کسی بد اخلاق انسان کو لیڈر یا رہنما نہیں مانا جاتا۔ کسی بھی سیاست دان یا حاکم کو نہ تو کسی انسان کامذہب زبردستی چھڑوانا چاہئے اور نہ اسے زبردستی اپنا ہم مذہب بننے پر مجبور کرنا چاہئے۔ مذہبی رائے یا عقیدہ میں ہر شخص آزاد ہو۔ اسی کو پر امن بقائے باہمی کہتے ہیں اور یہی اسلام کی بھی امتیازی شان ہے۔ دنیا کے سب سے پہلے تحریر ہونیوالے آئین میثاق مدینہ میں بھی اسی پر امن بقائے باہمی کی ضمانت دی گئی تھی اور یہ شرف بھی پیغمبر اسلام کو حاصل ہے!
اپنے ابتدائی دور میں مسیحیت مشرق وسطیٰ میں ایک مظلوم اقلیت تھی۔ یمن کے سنگدل ظالم یہودی بادشاہ عیسائیوں پر مظالم توڑ رہے تھے۔ خندقوں میں آگ دہکا کر مسیحیوں کو زندہ جلایا گیا۔ قرآن کریم کی سورت بروج میں اس کا ذکر ہے۔ یروشلم کے درندہ صفت یہودی بھی رومیوں سے عیسائیوں پر ظلم کرواتے تھے۔ مگر پیغمبر اسلام ان مظلوم عیسائیوں کی حمایت کرتے اور انہیں پناہ بھی دیتے تھے۔ جب بھی یہ مسیحی مدینہ شریف میں آتے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرانے اور اپنی عبادت کرنے کی اجازت بھی دی جاتی تھی!
سورت المائدہ آیت 82 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بت پرست مشرکوں اور یہودیوں کے برعکس مسلمانوں کے قریب ترین دوست اور تعاون کرنےوالے تو وہ مسیحی ہیں جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم تو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ماننے والے ہیں وجہ یہ ہے کہ ان مسیحیوں میں علم کتاب کی روشنی سے منور پادری اور راہب بھی ہیں اور یہ سب غرور اور تکبر کرنے والے نہیں ہیں! یہ قرآنی بشارت عیسائیوں سے اوجھل رکھنے کی ناپاک کوششیں کی گئی ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کوشش رومی شہنشاہ نے کی تھی، عہد نبوی کے کچھ عیسائی پادری اور راہب مدینہ شریف آئے۔ یہ جب تسلی کر کے واپس ہوئے تو انکے بڑے نے سب کو چونکا دیا کہ حضرت محمد کی ذات پاک میں وہ تمام علامات موجود ہیں جو ہم تورات اور انجیل میں پاتے تو اس پر کہا گیا کہ آپ پھر اس کا اعلان کیوں نہیں کر دیتے؟ بڑے نے کہا کہ میں ڈرتا ہوں کہ رومی شہنشاہ ہمارا وظیفہ نہ بند کر دے۔ شہنشاہ کو پتہ چلا تو اس نے وظیفہ بھی بڑھا دیا اور حکم بھی دیا کہ پیغمبر اسلام کے متعلق تورات اور انجیل کی سچائی کا ابھی اعلان نہ کیا جائے اسکے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں موجود عیسائی مشنریوں پر روپیہ بانی کی طرح انڈیل دیا ۔ مسلمانوں اور مسیحیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کے تمام رستے بند کر دیئے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اسلام کے شدید ترین دشمن یہودی بھی بیچ میں کود پڑے اور آج بھی یہ ظالم اسی طرح سرگرم ہیں۔ رومنوں اور ابرانیوں کو بھی اکسایا کہ نو خیز اسلامی ریاست تمہارے لئے کل کا بڑا خطرہ ہے اسے پہلے ہی ختم کر دو۔ اس تصادم کے نتیجہ میں وقت کی دونوں سپر پاورز نابود ہو گئیں اور مسلمان جیت گئے۔ پھر صلیبی جنگوں پر یورپ کے ہوس پرستوں کو اکسانے والے بھی یہی یہودی تھے۔ اسلام کے خلاف کمیونزم کا طوفان کھڑا کرنوالا کارل مارکس بھی اصل میں یہودی ہی تھا۔ بیسویں صدی کے اختتام پر گرم پانیوں تک رسائی کا شوق رکھنے والے سودیت یونین نے مشرک و بت پرست بھارت کا سہارا لینا چاہا اور محترمہ اندراگاندھی کے دوپٹے کے سایہ میں افغانستان اور پاکستان کو کچلتے ہوئے آگے بڑھنا چاہا مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں مگر آج مانا ہوا عالمی دہشت گرد نریندر مودی اندرا گاندھی کے لباس میں ٹرمپ اور بنیامین نیتن یاہو کی شاباش اور لائسنس کے ساتھ غیر ہندو اقلیات خصوصاً مسلمانوں کا قصہ تمام کر کے عالمی جنونیت کے مسلح گھوڑے ڈنلڈٹرمپ کی طاقت کے سہارے نہ صرف یہ کہ پاکستان کو سبق سکھانے کی فکر میں ہے بلکہ نسل پرست برہمن ،نسل پرست عالمی صیہونیت کے سہارے عالم اسلام کو امریکہ کا غلام بنانے پر بھی تلا ہوا ہے۔ علامہ اقبال کے زمانے میں تو یورپ کی رگ جاں پنجہ¿ یہود میں تھی مگر آج ہمارے انکل سام کی رگ جاں بھی پنجہ¿ یہود میں ہے اور ٹرمپ صاحب اپنی ذلت کی موت کے ساتھ ایک اچھی قوم اور ایک عظیم ملک ہمارے دوست امریکہ کو بھی سودیت یونین منوانے کے ناپاک ارادے سے نسل پرست برہمن اور نسل پرست یہودی کی خاطر افغانستان سے تیسری عالمی جنگ سے انسانیت کو تباہ کروانے پر تلا ہوا ہے۔
میں ہرگز مایوس نہیں ہوں، مجھے یقین ہے کہ قرآن کریم کا مذکورہ اعلان برحق ہے۔ آخر کار مسلمان اپنے مسیحی بھائیوں کی دوستی اور تعاون کو حقیقت بنانے والے ہیں اب تو اسی دوستی اور تعاون کی آوازیں ہمارے بھائی مسیحی عالم سے بھی بلند ہو رہی ہیں۔ کل کی بات ہے پوپ صاحب برمی مسلمانوں پر مظالم کی شدید ترین مذمت کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ مصر کے امام اکبر شیخ الازھر ڈاکٹر محمد احمد طیب کو دوبارہ ویٹیکن بلا چکے ہیں اور وہ خود مصر کا دورہ بھی کر چکے ہیںاور اسلامی اور مسیحی دنیا کے یہ بڑے مذہبی لیڈر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ عالمی امن کی خاطر مسلم مسیحی دوستی اور تعاون اسکی ضمانت ہوگی۔
جہاں تک پاکستانی مسیحی بھائیوں سے محبت و مودت، دوستی اور تعاون کا تعلق ہے تو میرے خیال کے مطابق پاکستان کے مسیحی بھائی تو ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ پاکستان کے مسیحی بھائی کوئی اقلیت نہیں ہیں وہ تو مالک ہیں ہم ایک دوسرے کے ہاتھ سے کھاتے پیتے ہیں۔ مجھے تو جب اپنے چیف جسٹس انکل کارنیلئیس کی محبت بھری اور سچی باتیں یاد آتی ہیں تو سر جھکا کر سلام کرتا ہوں۔