بہت سال پہلے کی بات ہے۔ جلال پور جٹاں کے رہائشی شیخ فیض بخش کے گھر میں چوری ہو گئی۔ چور بہت سا مال و اسباب لے اڑے۔ گھر کے سربراہ نے کہا۔ ہم لُٹ گئے۔ لیکن گھر کے ایک فرد کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ ہم بن گئے۔ اس فرد کا نام عظمت شیخ تھا۔ شیخ گھرانے کے اس فرد کو اللہ تعالیٰ نے بڑی عظمت عطا فرمائی۔ ان کو فوٹوگرافی کا شوق تھا۔ اُس دور میں حج عمرے کی سعادت کم ہی خوش نصیبوں کو حاصل ہوتی تھی۔ لوگ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی تصویریں دیکھ کر قلب و روح کو تسکین پہنچاتے تھے۔ عظمت شیخ بھی جب کوئی ایسی تصویر دیکھتے تو فرطِ جذبات سے چومتے، آنکھوں اور سینے سے لگاتے لیکن تصویر کا معیار دیکھ کر دل میں خلش محسوس کرتے اور سوچتے کہ دنیا میں کئی کروڑ مسلمان ہیں کیا ان میں ایسا کوئیبھی نہیں جو حرمین شریفین کی خوبصورت تصاویر بنا سکے۔ کوئی قبولیت کا لمحہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے مسلمانوں میں سے انہیں ہی اس کام کے لئے منتخب کر لیا اور آج دنیا کے کئی ممالک میں ان کی بنائی ہوئی حرمین شریفین کی تصویریں لوگوں کےقلب و روح کو تسکین پہنچا رہی ہیں اور انہوں نے ”عکاس حرمین شریفین“ کی حیثیت سے شہرت پائی۔
7 ستمبر 2017ءبروز جمعرات کی دوپہر کو جب گارڈن ٹا¶ن کے قبرستان میں ان کی تدفین سے کچھ دیر پہلے ان کا آخری دیدار کروایا گیا تو سر اور داڑھی کے سفید بالوں اور نورانی چہرے سے انکی اگلی منزلوں کی آسانی اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی فراوانی کی نوید مل رہی تھی۔
عظمت شیخ کے گھر چوری ہوئی تو کچھ عرصہ بعد ان کے ایک عزیز نے انہیں کویت بلا لیا اور ان کی وہ بات پوری ہو گئی کہ ہم بن گئے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی سوانح عمری کا نام رکھا تھا ”دعا دیتا ہوں رہزن کو“ ۔کویت میں انہوں نے مزدوری بھی کی۔ انہوں نے گلبرگ میں اپنے گھر میں حرمین شریفین کی خوبصورت تصویروں پر مشتمل گیلری بنا ر کھی تھی جہاں نہایت نفاست سے تصویریں آویزاں کی ہوئی تھیں۔ وہیں کویت میں مزدوری کرتے ہوئے تصویریں بھی تھیں جو اس بات کا ثبوت تھیں کہ وہ اپنے ماضی اور تنگدستی کو نہیں بھولے تھے۔ کویت میں مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے تصویریں بنا کر ان کے ویو کارڈز چھپوا کر مختلف دکانوں پر دینے شروع کر د یے۔ یہ کام چل نکلا جیسے فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کے حنا بندی۔ تصویروں کی دھوم مچی تو کویت کی وزارت صحت میں فوٹو گرافر کی ملازمت مل گئی۔ وزیروں سفیروں سے ملاقاتیں ہونے لگیں اور ہر سطح پر ان کے کام کی پذیرائی ہونے لگی۔ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھا۔ تصویروں کے پرنٹ کبھی انگلینڈ سے بنواتے کبھی اٹلی سے۔ مختلف ممالک میں نمائشیں ہوئیں۔
حرمین شریفین کی اچھی تصویریں بنانے کی لگن اور تڑپ کے ساتھ کیمرہ لے کر مکہ معظمہ پہنچے۔تصویر بنا رہے تھے کہ شرطے یعنی پولیس کے سپاہی نے کیمرہ چھین لیا۔ فلم نکال کر ضائع کردی۔ دکھی دل کے ساتھ واپس کویت آ گئے۔ یہاں کے ایک وزیر کو پتہ چلا تو اس نے کیمرہ واپس دلا دیا۔ لیکن انہیں کیمرہ ہی نہیں اپنی دلی آرزو کی تکمیل بھی چاہئے تھی اور پھر انہیں سعودی حکومت کی طرف سے حرمین شریفین کی تصویریں بنانے کی اجازت ہی نہیں تصویریں بنانے کے لئے ہیلی کاپٹر بھی مل گیا۔ بس پھر کیا تھا ایک تصویر بنتی تھی اور آنکھوں سے آنسو¶ں کی جھڑی لگتی تھی۔ تصویریں بنیں تو پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ کروڑوں مسلمانوں میں سے یہ عظمت و سعادت ان ہی کے حصے میں آئی۔ بات گورے کالے یا عربی عجمی کی نہیں اُس تڑپ، لگن اور جذبے کی ہوتی ہے جو بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت پاتا ہے۔
عظمت شیح جب مستقل طور پر پاکستان آ گئے تو مجید نظامی صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ ملاقات باہمی عقیدت و محبت میں بدل گئی۔ مجید نظامی صاحب نے لاہور کے بہترین ہوٹلوں میں انکی دو نمائشیں منعقد کروائیں اور ان ہی کی ہدایت پر ایک نمائش نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہوئی۔ عظمت شیخ نے اپنی کتاب میں نظامی صاحب کے بارے یوں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ”اگر میرے لیے ممکن ہوتا تو میں مجید نظامی صاحب کو سونے میں تولتا۔“ عظمت شیخ سماجی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔ علمی، ادبی اور سماجی اداروں سے تعاون کرتے، اپنے گھر دوست احباب کو اکثر مدعو کرتے۔ ذکر و نعت کی محفلیں منعقد کرتے، پُرتکلف دعوتیں کرتے اور مہمانوں کی خود تواضع کرتے اور کھانا خود ڈال کر دیتے۔ ان کی گفتار، ان کے کردار، ان کے لباس، ان کےگھر اور ان کے کام سے نفاست ٹپکتی تھی۔ ”پھول“ کے پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے اور بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ وہ سچے درویش تھے۔ ”اللہ دا فقیر“ کہلانا پسند کرتے تھے۔ گھر کے باہر بھی نیم پلیٹ پر ”اللہ دا فقیر“ لکھوا رکھا تھا۔ آخری عمر میں جب کوئی انٹرویو کےلئے رابطہ کرتا تو کہتے کہ انٹرویو اور شہرت بہت ہوگئی اب اگر اللہ اور اس کے رسول کی بات کرنی ہے تو آ جائیں۔ آیات‘ احادیث اور دعاﺅں پر مشتمل ایک کتاب بھی مرتب کرکے چھپوائی اور مفت تقسیم کی۔ کچھ عرصے سے علیل تھے اور پھر ”اللہ دا فقیر“ اللہ کو پیارا ہوگیا۔ تدفین کا آخری مرحلہ آن پہنچا۔ یادوں کا سلسلہ ٹوٹا اور میں عقیدت کے آخری تحفے کے طور پر دو مٹھی مٹی اور چند پھول ان کی مرقد پر نچھاور کر کے دیگر احباب کے ساتھ قبرستان سے سوگوار باہر آگیا۔ اس کے دعا کے ساتھ کہ
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
”اللہ دا فقیر“ .... اللہ کو پیارا ہو گیا
Sep 14, 2017