اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں لوڈشیڈنگ کے بارے میں پیش کیے گے اعداد وشمار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 12سے20گھنٹے ہو رہی ہے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والے عوام کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں ا،اپوزیشن اراکین نے شیم شیم اور جھوٹ جھوٹ کے نعرے بھی لگائے ایوان میں شدید احتجاج کیا ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا تھااسی دوران اپوزیشن نے ا جلاس سے واک آؤٹ کردیاوفاقی وزیر شیخ آفتاب ڈپٹی سپیکر کی ہدایت پر اپوزیشن کو منا کرایوان میں لے آئے وقفہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری توانائی اظہر قیوم نے بتایا کہ ہم سب کے اعتراضات دور کریں گے،ہم نے 5سال یہ نہیں کہا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہمیں جہیز میں ملی،سندھ کے مختلف علاقوں میں جہاں لائن لاسز کے باعث18سے20گھنٹے ہونی چاہئے وہاں ریلیف دے کر8سے10گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے، دیگر علاقوں میں4سے5گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ بجلی کی بلوں میں9قسم کے ٹیکس لگائے جارہے ہیں‘ آپ لوگ عوام پر کب ترس کھائیں گے۔وقفہ سوالات کے دوران سید وسیم حسین کے سوال کے جواب میں وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ نیب سرچ وارنٹ کے لئے احتساب عدالت سے منظوری لے کر جوڈیشل مجسٹریٹ اور لیڈیز پولیس اور نیب خاتون افسر کے ہمراہ چھاپہ مار کر ریکوری میمو پر تفصیلات درج کرکے برآمد ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں میں نیب نے بہت سی ریکوری کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی ہے۔ ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ متفقہ قرارداد اس ایوان نے پاس کی ‘ سینٹ نے بھی قرارداد پاس کی اور ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو نیب لاء کو کلاز وائز جائزہ لے رہی ہے۔ کرپشن کی تعریف اور سزا پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ دونوں ایوانوں میں اتفاق رائے سے قانون لایا جائے وقفہ سوالات کے دوران نعیمہ کشور خان کے سوال پر وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ 175اے کے تحت جج کی تقرری متعلقہ چیف جسٹس ہائیکورٹ سے آتی ہے، اس کے بعد جوڈیشل کمیشن میں معاملہ آتا ہے۔ ضمنی سوال پر انہوں نے کہا کہ خواتین ججز کے لئے کوٹہ مخصوص نہیں ہے لیکن خواہش ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں خواتین کی زیادہ نمائندگی ہونی چاہیے۔ مزید برآں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے وقفہ سوالات کے دور ان جواب نہ ملنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر قومی اسمبلی کا اجلاس پندرہ منٹ کیلئے معطل کردیا ۔ اجلاس سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہواتو اپوزیشن کی جانب سے وزارت دفاع اور انسانی حقوق سے متعلق سوالات کئے گئے ٗ متعلقہ وزارت کے وزیر ایوان میں موجود ہی نہ تھے۔حکومتی ارکان اور وفاقی وزرا کی ایوان میں عدم موجودگی پر ایاز صادق نے وزیر دفاع ، سیکرٹری دفاع اور انسانی حقوق کے سیکریٹری کو پندرہ منٹ کے اندر ایوان میں آنے کی ہدایت کی تاہم مقررہ وقت کے بعد بھی متعلقہ حکام ایوان میں نہ آئے، جس پر سپیکر قومی اسمبلی نے شدید ناراضی کا کو اظہار کرتے کہا کہ میں جواب نہ دینے والے نا اہل لوگوں کی وجہ سے تمام ارکان اسمبلی کو یرغمال بناکر نہیں رکھ سکتا۔اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نوید قمرنے اسپیکر قومی اسمبلی کو تجویز دی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کردیا جائے،جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے نوید قمر کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے اجلاس پندرہ منٹ کیلئے ملتوی کر دیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی میںپاکستان تحریک انصاف کی طرف سے کورم کی نشاندہی کی وجہ سے حقوق رسائی معلومات بل 2017ء کی شق وار منظوری کا عمل مکمل نہ ہو سکا وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے تحریک پیش کی کہ حقوق رسائی ملومات بل 2017ء سینٹ کی منظور کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ عوامی مرکز میں آتشزدگی کی وجہ سے کئی اداروں کا ریکارڈ جل گیا ہے۔ ریکارڈ کے تحفظ کے لئے بھی قانون بننا چاہیے۔ سارے ریکارڈ کی مائیکرو فلمز بننی چاہئیں۔ ہر چیز کا ریکارڈ جل جاتا ہے جس کا ریکارڈ طلب کیا جائے گا کہا جائے گا کہ جل گیا ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بل کی شق 7 میں بعض معلومات کی فراہمی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ہمیں اس پر اعتراض ہے تاہم قومی سلامتی سے متعلقہ معلومات کی عدم فراہمی پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس شق کو ٹھیک کیا جائے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہمیں طریقہ کار پر اعتراض ہے ترامیم پیش کرنے کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بل کب پیش ہوگا۔ شازیہ مری نے کہا کہ یہ اہم معاملہ ہے۔ بل کی شق 20ڈی کے تحت ریکارڈ ضائع کرنے کا جرمانہ صرف 50 ہزار رکھا گیا ہے۔ پی ٹی وی میں قومی اسمبلی کی مکمل کارروائی نہیں دکھائی جارہی ہے حالانکہ اپوزیشن کی بھی ساری تقاریر دکھائی جانی چاہئیں۔ بل کو زیادہ موثر بنایا جائے۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ بل اس جذبے سے ہونا چاہیے کہ کسی حکومت یا اپوزیشن کا نہیں پورے ملک کے لئے ہونا چاہئے۔ اس بل پر اپوزیشن کے ساتھ مزید مشاورت کی جائے۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے خورشید شاہ کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھی بطور اپوزیشن ماضی میں حکومت سے مکمل تعاون کیا۔ مگر مشاورت کے باوجود تنقید برائے تنقید ہوتی ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ تمام ارکان کو اپنی ذمہ داری کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ یہ بل تمام ارکان کو 30 ستمبر کو بھجوایا گیا۔ اگر ارکان بھی نہیں پڑھتے تو اس میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ بل کے مسودے کے ایک ایک لفظ پر ارکان پارلیمنٹ کو فخر ہونا چاہیے۔ ریکارڈ جلنے کے حوالے سے اپوزیشن کی بات کا ازالہ بھی اس بل میں موجود ہے۔ اس بل پر چاروں صوبوں سے اس طرح کے منظور ہونے والے بلوں سے موازنہ کرکے بہتر بنایا گیا ہے۔ اس بل کے تحت آزاد کمیشن بنے گا۔ اطلاعات تک رسائی آسان ہوگی۔ معلومات کی فراہمی میں دس دنوں کی مہلت دی جائے گی۔ انفارمیشن کمیشن میں ادارے کے پرنسپل اکائونٹنگ کو ریکارڈ کی فراہمی کے حوالے سے مجبوریوں کی بناء پر اپیل کا حق ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلی دفعہ اس بل کے تحت لاپتہ افراد سے متعلق تین دنوں کے اندر ادارے اطلاعات فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ انفارمیشن کمیشن کے تمام تقاضے اس قانون میں شامل کردیئے گئے ہیں۔ احتساب ‘ اچھی طرز حکمرانی اور شفافیت کو اس بل کے ذریعے یقینی بنایا جاسکے گا۔ ایوان کو یہ بل نیک جذبے کے ساتھ منظور کرنا چاہیے۔ قومی اسمبلی نے قومی کمیشن برائے اطفال بل 2017ء کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی وزیر ممتاز احمد تارڑ نے بل کیلئے تحریک پیش کی۔ قومی اسمبلی نے کارہائے منصبی‘ اختیارات‘ قیود و شرائط بل پر غور اپوزیشن کی درخواست پر موخر کر دیا۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر نے اجلاس آج جمعرات صبح ساڑھے 10بجے تک ملتوی کر دیا۔سپیکر ایاز صادق کی وارننگ کے بعد سیکرٹری دفاع ضمیرالحسن شاہ اور سیکرٹری انسانی حقوق رابعہ جویریہ سپیکر کے چیمبر میں پیش ہوگئے۔ دونوں افسران نے آئندہ کوتاہی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ سپیکر نے ہدایت کی کہ ایوان کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔