لندن کی ایک تقریب میںخادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی دھرتی نے اپنے بیٹوں پر عظیم احسانات کئے ہیں، یہ قرض ہم پر واجب ہے اور ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ دھرتی کا یہ قرض اتارے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ خادم اعلیٰ اپنی تقاریر میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتے ہیں کہ مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروںنے ، وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔
لندن میں خادم اعلیٰ کے مخاطب اوور سیز پاکستانی تھے جواوج کمال تک پہنچ گئے ہیں اوریہ سب سرزمین پاکستان کا فیض ہے۔ ورنہ پاکستان نہ ہوتا تو ہم میں سے کوئی بھی اس مقام تک نہ پہنچتا جہاں ہم آج فائز ہیں ۔ متحدہ ہندوستان میں ہم اقلیت میں تھے، ہمیں ہندو اکثریت شودر خیال کرتی تھی۔ ہمارے لئے تعلیم اور ترقی کے دروازے بند تھے۔ یہ تو پاکستان کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پھلنے پھولنے کے سنہری اور ان گنت مواقع عنائت کئے۔ ہم نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی ۔ آج پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور میزائلوں کی طاقت سے بھی لیس۔ اس کی طرف کوئی دشمن آ نکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا، ہم میں سے ہر کسی نے اپنی اپنی پسند کے شعبے میں زقندیں بھر کے ترقی کی۔ کوئی صدر بنا، کوئی وزیر اعظم ، کوئی چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر۔ کوئی سا ئنس دان ، کوئی انجینئر، کوئی ڈاکٹر،کوئی سرجن ،کوئی ماہر تعلیم ،کوئی ماہر تعمیرات۔ہم دنیا میں کہکشائوں کی طرح چمک رہے ہیں تو آج ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس دھرتی کا قرض ادا کریں جس کے فیض عام سے ہم اس بلند مقام تک پہنچے۔
خود خادم اعلیٰ کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ا نہوںنے اپنی سرزمین کو ایک لمحے کے لئے بھی فراموش کیا۔ اس دھرتی نے انہیں عزت دی، شہرت دی، دولت دی اور خادم اعلیٰ نے دھرتی اورا سکے بیٹو ں کی خدمت کی انتہا کر دی۔ اس ملک میں اندھیرے چھائے تھے، خادم اعلیٰ نے بجلی کے درجنوںنئے منصوبے شروع کئے ا ور دن رات ایک کر کے انہیں فنکشنل کیا۔ اس دھرتی پر خاک اڑ رہی تھی اور لوگ وہی بیل گاڑیوںمیں کچی پکی خستہ حا ل سڑکوں پر سفر کے لئے مجبور تھے، خادم اعلیٰ نے موٹر ویز بنا دیں، فلائی ا وور تعمیر کر دیئے، انڈر پاس بنا دیئے ، میٹرو بس کا شاندار بیڑہ رواں دواں کر دیاا ور اب جدید دور کی اورنج ٹرین کا منصوبہ زیر عمل ہے۔اور اسی پر بس نہیں سی پیک کے منصوبے کے ذریعے وہ چین کے تعاون سے پاکستان کو تین بر اعظموں سے جوڑنے کے لئے کوشاں ہیں۔خادم اعلیٰ کے راستے میں گو رکاوٹیں بہت ہیں مگر وہ انہیں خاطر میں نہیں لاتے، دل چھوٹا نہیں کرتے،گھبراہٹ ان کے مزاج کاحصہ ہی نہیں، وہ اپنی دھن میںمست ہیں اور آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں، وہ اپنی بیماری تک کی پروا نہیں کرتے اور صوبے بھر میں اچانک چھاپے مار کر افسر شاہی کوبے ڈھنگی چال سیدھی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
میرے خیال میں خادم اعلیٰ کے اصل مخاطب وہ سیاستدان ہیں جو حکومت اور جمہوریت کے دشمن ہیں، جنہیں انتخابی عمل سے بیر ہے، جو پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے اور صرف دھما چوکڑی مچانے کے شوق فضول میںمبتلا ہیں۔کبھی دھرنے، کبھی لانگ مارچ،کبھی لاک ڈائون، کبھی اوور سیز پاکستانیوں کو انگیخت کہ وہ اپنی رقوم بنکوں کے ذریعے نہ بھیجیں، کبھی ٹیکس اور دیگر سرکاری واجبات کی ادائیگی سے انکار کا وعظ فرماتے ہیں۔انہیں ایک صوبے میں حکومت مل بھی گئی ہے تو اس صوبے میں خاک اڑتی ہے یا ڈینگی سے لوگ مر رہے ہیں، ہسپتالوںمیں رل رہے ہیں، تعلیمی اداروں کا برا حال ہے، سرکاری ادارے بے عملی کا شکار ۔ مگر شرم تم کو مگر نہیں آتی کے مصداق ، انہیں اپنی اس ہیئت کذائی کا ذرہ بھر احساس نہیں اور صرف دوسروں کا راستہ روکنے کا جنون ان کے سر پہ طاری ہے۔
خادم اعلیٰ کو راستے کی ان مشکلات کی کوئی پروا نہیں، وہ ان بیڑیوں کو توڑ دیتے ہیں جو ان کے پائوں میں پہنانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لئے کہ خادم اعلیٰ کے عزائم ہمالہ سے بلند اور وہ ان بلندیوں کو پھلانگ کر چین تک پہنچتے ہیں اورنئے منصوبے جھولی میں بھر کے لاتے ہیں۔ یہ تو شہباز شریف کی سیاست، سفارت، حکمت اور تدبر کا کمال ہے کہ آج اس کٹھن وقت میں بھی چین، ترکی، سعودی عرب اور جاپان ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
خادم اعلیٰ کو دھرتی کے جس کونے سے آواز آتی ہے، وہ ادھر لپکے چلے جاتے ہیں۔صوبے کی متوازن اور مساوی ترقی کا سبق کوئی ان سے سیکھے، اب جنوبی پنجاب سے کوئی چیخ و پکار نہیں اٹھتی کہ وہ احساس محرومی کا شکار ہیں، میں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ چکوال میں بھی شوگر ملیں ہیں،جہاں دور دور تک پہاڑوں کا راج ہے ۔اسی چکوال کی سرزمین پر البتہ ایک قدیم کالج قائم ہے جس کے محسن اعظم کے طور پر راجہ غضنفر علی خان کو یاد کیا جاتا ہے، اس کالج نے ملک کو جمیل یوسف جیسے شاعر دئیے، کرنل محمد خان جیسے مزاح نگار دیئے۔ اور پاک فوج کو اعلی سے اعلی جرنیل اور سپاہی دیئے، ا ن میں ہیرے جیسے جنرل عبدالمجید ملک کو نہیں بھول سکتا جنہوںنے ایک ہی ہلے میں بھارتی قلعے قیصر ہند کو تاراج کر کے رکھ دیا تھا۔اب خادم ا علیٰ یہاں پوسٹ گریجو ایٹ گرلز کالج کی تعمیر کی منظوری دے چکے ہیں ، اس سے صنف نازک کو اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کا پورا پورا موقع ملے گا۔ تعلیم کے فروغ کی ذمے داری اکیلے ریاست کی نہیں۔ سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی بنائی ، وہ حکومت میںنہیں تھے، لاہور میں ہر دو کوس کے فاصلے پر نئی سے نئی یونیورسٹی اگ رہی ہے، انہیں حکومت نہیںبنا رہی، نجی شعبہ اپنا فرض نبھا رہا ہے، اور مٹی کا قرض ادا کر رہا ہے ۔سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، جہلم ، ساہیوال ، سرگودھا، فیصل آباد، ملتان اور رحیم یار خان تک نجی شعبہ ہی تعلیمی ادارے کھڑے کر رہا ہے، ان ا داروں کے طلبہ و طالبات پوزیشن ہولڈر بنتے ہیں چکوال، گوجر خان، دینہ ، پنٖڈدادن خان اور چکری کے سرمایہ کار بھی دھرتی کا قرض ادا کریں اور نئی نسلوں کے لئے اعلی معیار کے تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھیں۔
تعلیمی اداروں کو فروغ دینا خادم اعلیٰ کا بھی شوق ہے جو پھل پھول رہا ہے، برگ وبار لا رہا ہے، دانش اسکولوں سے یہ سلسلہ چلا اور لیپ ٹاپ تک جا پہنچا۔کہیں سے انڈو منٹ اسکیم بھی جھانکتی نظر آتی ہے جو ذہین اور مستحق طلبہ و طالبات کی اعلی تعلیم کے لئے بیرونی یونیورسٹیوں کے اخراجات اٹھاتی ہے، اس فنڈ سے فیض یاب ہونے والے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے کر دھرتی کا قرض اتارنے میںمصروف ہیں، دیئے سے دیا جلتا ہے، خادم ا علیٰ نے لاکھوں دیئے روشن کئے، اب ہر کسی کا فرض ہے کہ وہ بھی آگے بڑھے ، اپنے حصے کا فرض ادا کرے، دھرتی ماں اپنے بیٹوں کو پکار رہی ہے، خادم ا علیٰ نے یہی بھولا ہوا سبق یاد دلا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔