اسلام آباد(سٹاف رپورٹر) افغانستان کے حوالہ سے یہاں منعقدہ دو روزہ مذاکرہ کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔پاکستان اور افغانستان، دونوں ملک باہمیبات چیت کیلئے تیار ہیں۔افغان حکومت اور طالبان لڑائی ختم کریں۔ پاک، افغان غیر رسمی سفارتکاری کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ مذاکرہ بدھ کو اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ مذاکرہ کی اہم سفارشات میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، طالبان پر اثر و رسوخ نہیں رکھتا اور پاکستان کو اس حوالہ سے کوئی ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ غیر رسمی مذاکرے کی اہم سفارشات، ادارہ علاقائی امن کے رو¿ف حسن نے اختتام پر پڑھ کر سنائیں۔ سفارشات میں مزید کہا گیا ہے کہ چین اپنے مفادات کے تحت خطے میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کو یقین دلانا ہو گا کہ دونوں کی سرزمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہ ہو۔ دونوں ممالک میں حالات بتدریج امن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان کے مابین لڑائی ختم ہونی چاہئے۔ پاکستان، چین اور امریکہ، افغان طالبان اور حکومت کے مابین ثالث ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو کیا پیکج دیا جائے، یہ امن کیلئے اہم ہیں۔ افغانستان میں الیکشن کو زیادہ شفاف اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ قبل ازیں ڈینش ڈیفنس کالج کے ڈیوڈ نے مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان نے گزشتہ 15 سالوں میں بہت کچھ کھویا۔ خطے میں امن کیلئے سرحدوں کے دونوں اطراف بیٹھے لوگ اہم ہیں۔ مذاکرات، مفاہمت، سیاسی اصلاحات اور پاک، افغان عوام امن لا سکتے ہیں۔ امریکہ کا خطے میں کلیدی اور انتہائی اہم کردار ہے۔ امریکہ بھی افغان امن کیلئے موزوں ماحول کی تلاش میں ہے۔ امریکہ کو پاکستان کیساتھ تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانا ہو گا۔ علاقائی سطح پر علاقائی حل انتہائی ضروری ہے۔ امن کو موقع دینا ہو گا، یہ مشکل راستہ ہے ایک دن ممکن نہیں، لیکن ناممکن نہیں۔ پاکستان پر گزشتہ سالوں میں بہت دباو¿ ڈالا گیا جو درست نہیں تھا۔ بین الاقوامی برادری اور افغانستان کو پاکستان کا موقف سمجھنا چاہیے۔
”افغان مسئلہ کا کوئی فوجی حل نہیں“ مذاکرات کیے جائیں“
Sep 14, 2017