لاہور (نامہ نگاروں سے) مختلف شہروں میں 2 کمسن لڑکوں، لڑکی اور خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ پاکپتن کے محلہ عزیز آباد کے ریاض احمد کی 10 سالہ بیٹی زنیرا کو اوباش نے سکول جاتے ہوئے اغوا کر لیا، والد بچی کی بازیابی کیلئے تھانہ فرید نگر پہنچا، پولیس نے تھانہ سے نکالتے کہا جائو تلاش کرو بچی مل جائے گی، واقعہ کو 12 گھنٹے گزرنے کے بعد ملزمان نے بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا کر ہسپتال کے باہر پھینک دیا، والد نے انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا دروازہ کٹھکٹھایا، عدالت کے نوٹس پر پولیس نے مقدمہ درج لیا، متاثرہ بچی کے والد ریاض احمد کا کہنا تھا زنیرا ابھی تک ہوش میں نہیں آئی، پولیس سے بھی مجھے انصاف کی کوئی توقع نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان نوٹس لیں۔ اس حوالہ سے ایس ایچ او تھانہ فریدنگر عابد حسین بھلہ نے اپنے موقف میں بتایا کہ میڈیکل میں بچی سے زیادتی کی تصدیق نہیں ہوئی نہ ہی مدعی مقدمہ اندراج مقدمہ کیلئے تھانہ میں پیش ہوا تاہم پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔ جھنگ کے موضع منصور سیال کی (ن،ب) نے اپنی درخواست میں بتایا کہ خادم حسین نے مبینہ طور پر اسے قابو میں کر کے اس سے زیادتی کی، ملزم کا ایک نامعلوم ساتھی وہاں پہرہ دیتا رہا۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا۔ نواحی چک 11/2تھل کے محمد انور نے پولیس کو دی گئی درخواست میں بتایا کہ ضمیروغیرہ چار افراد نے مبینہ طور پر اس کی پوتی (ع،س) کو اغواء کر لیا، بعدازاں ضمیر نے اس سے زیادتی کر ڈالی۔ گواہان کے موقع پر آجانے کے بعد ملزمان فرار ہوگئے۔ پولیس نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے نواحی چک نمبر 323 ج ب میں اوباش محمد زبیر ارشد کے آٹھ سالہ بیٹے فرحان کو ورغلا کر ساتھ لے گیا اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا، تھانہ سٹی ٹوبہ پولیس نے متاثرہ بچے کے والد محمد ارشد کی درخواست پر ملزم کے خلاف زیردفعہ 377 ت پ کے تحت مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی۔ سیالکوٹ کے نواحی قصبہ بونکن میں تین کلاس فیلوز نے آٹھ سالہ بچی سے زیادتی کر ڈالی۔ تھانہ مراد پور کے علاقہ بونکن کی صائمہ اصغر کا کہنا ہے کہ اسکا آٹھ سالہ بیٹا رانا قاسم گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول میں پڑھتا ہے۔ چند روز قبل وہ سکول سے واپس آیا تو وہ ڈرا ہوا تھا رانا قاسم نے بتایا کہ اس کے کلاس فیلوز یوسف، عالم اور زین نے اس سے زیادتی کی۔ صائمہ اصغر کا کہنا ہے کہ وہ سکول گئی کلاس ٹیچر نور عالم اور پرنسپل سے شکایت کی۔ انہوں نے بچوں کو بلا کر برا بھلا کہنے کی بجائے اسے برا بھلا اور چپ رہنے کا کہا۔ صائمہ اصغر کا کہنا ہے کہ اس نے سکول کے باہر کھڑے ہو کر پولیس کو کال کی جس پر تھانہ مراد پور کے تھانیدار ارشد پولیس اہلکار کے ہمراہ آیا۔ تھانیدار ارشد نے مقدمہ درج کرنے کیلئے اس سے سادہ کاغذ پر دستخط لئے۔ صائمہ بی بی کا کہنا ہے کہ تھانیدار نے ملزمان سے مل کر ان سے رشوت لے کر مقدمہ درج کرنے کی بجائے دستخط شدہ کاغذ پر راضی نامہ لکھ لیا تھا۔