’’ولی‘‘

مجھے بہت اچھا لگا تھا جب اس دن مولوی صاحب نے مجھے میری تین بہنوں کا ولی کہا۔ ابو کے جانے کے بعد ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی تھیں لیکن اس دن اپنی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوا تھا جہاں وہ تینوں من مانی کرنے لگتیں میں فوراً جتا دیتا کہ بہنو ہوشیار ہو جائو۔ ولی کی بات تو ماننی پڑے گی۔ نتیجہً وہ میرا خوب ریکارڈ لگاتیں اور مانو جو ایم اے اردو کر رہی تھی وہ تو جھک کر کہتی ’’بھیا آپ کو اس کا مطلب کا بھی پتہ ہے اور میں بے بس ہو کر اپنی ہنسی چھپاتا۔ اس د ن گھر واپسی پر ناظم نے مجھے مانو کے متعلق ایک ایسی بات بتائی جس پر میرا خون کھول اٹھا۔ میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور اس کے بعد جو کچھ اس نے مجھے بتایا مجھے نہیں یاد کہ میں نے اگلا سانس کیسے لیا۔ میں شاید ناظم کا خون کر ڈالتا لیکن وہ بھاگ گیا۔ میں زخمی شیر کی طرح گھر پہنچا اور پاگلوں کی طرح مانو مانو چیخنا شروع کر دیا۔ وہ بھاگتی ہوئی آئی تو میرے اندر کا ’’غیرت‘‘ نامی جانور بپھرتا ہوا آگے آیا اور ایسی سختی سے اس کا گلا دبایا کہ اسے کچھ ساعتوں کی مہلت ہی نہ ملی اس کا بے جان جسم میرے قدموں میں گر گیا۔ مجھے یاد ہے کھلی آنکھوں اور بند دل کے ساتھ گلی میں نکلا تو لوگوں کی آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ’’بڑا غیرت مند بھائی ہے۔ ’’واہ‘‘ بہت بہادر ہے۔ عزت کے آگے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘گلی کے کونے پر مولوی صاحب کی پتھر کی طرح ساکت آنکھیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ ’’ولی کا مطلب جانتے ہو۔ خدا کا خاص بندہ، اس کے مترادف محافظ۔ دوست۔ تم ان سب میں کچھ بھی نہیں تھے۔‘‘ ان کے لہجے میں نفرت مجھے آج بھی یاد ہے۔ قصاص و دیت کا قانون کام آیا۔ میری بہنوں نے مجھے نہ جانے کیوں معاف کر دیا۔ لیکن ایسے کہ میرا چہرہ نہیں دیکھتیں۔ گھر میں داخل ہوتا ہوں تو بھاگ کر اپنے کمروں میں چھپ جاتی ہیں۔ ٹیبل پر گرم کھانا موجود ہوتا ہے اور رات کو سوتے ہوئے روزانہ ایک کھٹکتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکراتی ہے ’’بھائی آپ کو ولی کا مطلب بھی پتہ ہے‘‘ یہ آواز صبح تک میرے کمرے کی ہر دیوار سے ٹکراتی رہتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن