دوحہ (اے این این+ انٹرنیشنل ڈیسک) افغان طالبان کا کہنا ہے اگر امریکا چاہتا ہے کہ ان کے فوجیوں پر حملے نہ ہوں تو وہ ہم سے معاہدہ کر لے۔ دوحا میں طالبان دفترکے ترجمان سہیل شاہین نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت حیران کن تھا کیونکہ امریکا کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ معاہدہ ہو چکا تھا۔ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے 9 دور سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے بھی کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہد تقریبا طے پا چکا ہے۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں جن چار نکات پر توجہ مرکوز کی گئی ان میں پہلی چیز یہ تھی کہ طالبان غیر ملکی جنگجوؤں کو دوسرے ممالک پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ دوسرا یہ کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فورسز کا مکمل انخلا، تیسرا افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اور چوتھا نکتہ مکمل سیز فائر تھا۔ تاہم سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فائر بندی کبھی بھی مذاکرات کا حصہ نہیں رہے تاہم افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر بات کی گئی لیکن وہ بھی اس صورت میں کہ جب افغانستان سے غیر ملکی فوجیں مکمل طور پر نکل جائیں۔ طالبان ترجمان نے کہا کہ دوسرے افغانوں کی طرح ہم بھی امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، اگر امریکا چاہتا ہے کہ ہم ان پر حملے نہ کریں تو وہ ہمارے ساتھ معاہدہ کر لے، ہم ان پر حملے نہیں کریں گے لیکن اگر وہ اپنی بربریت جاری رکھتا ہے، رات کے آپریشن جاری رکھتا ہے تو ہم بھی وہی انداز اپنائیں گے جو گزشتہ 18 سال سے جاری ہے۔ ادھر امریکی کانگریس نے افغان مذاکرات میں ملک کی نمائندگی کرنے والے مذاکرات کار زلمے خلیل زاد کو ایوان نمائندگان کے اجلاس میں شریک ہو کر مذاکراتی عمل کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ خلیل زاد کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 19 ستمبر کو ایوان نمائندگان کے اجلاس میں شریک ہوں۔ ایوان نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ایلیٹ اینگل نے زلمے خلیل زاد کو اجلاس میں شرکت کرنے کا خصوصی حکم نامہ جاری کیا ہے۔ چند روز قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو اچانک منسوخ کرنے کے اعلان کے ساتھ ساتھ تقریباً طے شدہ ڈیل کومردہ بھی قرار دے دیا۔