کراچی میں بلدیاتی نظام اور اس کا ارتقاء

Sep 14, 2020

  علی حسن ساجد 
(ڈائریکٹر میڈیا مینجمنٹ ‘کے ایم سی)
گزشتہ سے پیوستہ
اور 8جولائی 1948ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندو برادری کی اکثریت کراچی سے بھارت منتقل ہوگئی جس کے باعث کراچی میونسپل کارپوریشن کی منتخب کونسل کی افادیت تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ اس لیے 8جولائی 1948ء کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کی منتخب کونسل کو ختم کر دیا جائے۔ 1933ء کے ایکٹ کے سیکشن280(2)کے تحت حکومت نے کراچی میونسپل کارپوریشن اور اسٹینڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے کسی بھی شخص کا تقرر اور ان کی معاونت کے لیے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کرنے کی مجاز تھی چنانچہ حکومت نے 20جولائی 1948ء کو حکیم محمد احسن ہی کی سربراہی میں جو اس سے قبل میئر کراچی کے عہدے پر فائز رہ چکے تھے ایک ایڈوائزری کمیٹی قائم کی اور 23جولائی 1948ء کو کارپوریشن اور اسٹیڈنگ کمیٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے جناب اے اے انصاری کو میونسپل کمشنر مقرر کیا۔ جنہوں نے یکم نومبر 1950ء تک اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیے۔ 27فروری 1949ء کو جناب غلام علی الانہ ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر فائز ہوئے اور16اکتوبر 1952ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ یکم نومبر 1950ء کو جناب آر اے ایف ہائورائیڈ (Mr. R.A.F. Howoroyd)جو سی ایس پی سروس سے تعلق رکھتے تھے کو میونسپل کمشنر مقرر کیا گیا اور 28مئی 1953ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جناب حاتم اے علوی نے 27اکتوبر 1952ء کو ایڈوائزری کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا اور 11اپریل 1953ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔قیام پاکستان کے بعد منعقد ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات سے قبل وارڈز کی تعداد جو 199کے ایکٹ کے نفاذ کے وقت 8تھی  بڑھ کر 28اور ممبران کی تعداد 57سے بڑھ کر 100ہوگئی تھی۔ان وارڈز کے نام اس طرح سے تھے۔ وارڈ نمبر 1کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کسٹم کا علاقہ‘ وارڈ نمبر2ریلوے کوارٹرز‘ ریلوے ڈویژن اور چنیسر ولیج کا علاقہ‘ وارڈ نمبر3سول لائنز ‘ کلفٹن‘ پیر الٰہی بخش کالونی‘ فرنٹیئر ٹائون‘ گزری اور کوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کالونی۔ وارڈ نمبر4 غلام حسین کوارٹرز اور بندر کوارٹرز۔وارڈ نمبر5اولڈ ٹائون کوارٹرز اور نیپئر کوارٹرز۔ وارڈ نمبر6 تا 10لیاری کوارٹرز۔ وارڈ نمبر11اور 12رنچھوڑ لائن۔ وارڈ نمبر13لارنس کوارٹر زاور ٹیل رام کوارٹرز۔ وارڈ نمبر14ہرچند رائے وشنداس اور رامسوامی کوارٹرز۔وارڈ نمبر15پریڈی کوارٹرز اور صدر کوارٹرز۔ وار ڈ نمبر16رام باغ۔ وارڈ نمبر17آرٹلری میدان اور اسٹیٹ بورڈ۔وارڈ نمبر18وادھو مل اودھا رام مارکیٹ کوارٹرز۔ وارڈ نمبر19سرائے کوارٹرز۔ وارڈ نمبر20سولجر بازار اور گارڈن۔وارڈ نمبر21جمشید کوارٹرز اور پیر الٰہی بخش کالونی نمبر2۔ وارڈ نمبر22گارڈن ویسٹ۔وارڈ نمبر23جمشید کوارٹرز نمبر2۔ وارڈ نمبر24ٹرانس لیاری اور اورنگی نالہ کا کچھ حصہ۔ وارڈنمبر25ٹرانس لیاری‘ اورنگی نالہ اور گجرونالہ کا بقیہ حصہ۔ وارڈنمبر26لالو کھیت (لیاقت آباد) ۔ وارڈ نمبر27قائد آباد اور خداداد کالونی۔ وارڈ نمبر28جیکب لائن۔ 
1953ء میں کراچی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے بلدیاتی انتخابات ہوئے اور فروری 1954ء میں 100کونسلروں پر مشتمل پہلی منتخب کارپوریشن قائم کی گئی ۔جناب محمود اے ہارون میئر اور جناب محمد حبیب اللہ کو ڈپٹی میئر منتخب کیا گیا۔ جناب محمود اے ہارون نے میئر کے انتخاب میں 44ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل جناب صدیق وہاب کو 36ووٹ ملے۔ 26مئی 1955ء کو جناب ملک باغ علی میئر منتخب ہوئے اور 29مئی 1956تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔ 29مئی 1956ء کو جناب صدیق وہاب کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے اور 14دسمبر1956ء تک میئر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی روز بلدیہ کی منتخب کونسل کو ختم کر دیا گیا اور 15دسمبر1956ء کو حکومت نے جناب الطاف گوہر کلکٹر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کراچی کو میونسپل کمشنر کے عہدے پر مقرر کیا۔ اور 21جنوری 1957ء تک وہ اس عہدے پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ حکومت نے جناب سردار اے کے گبول کی چیئرمین شپ میں 15دسمبر 1956ء کو ایک پندرہ رکنی ایڈوائزری کمیٹی بنائی تاکہ وہ بلدیہ کے مختلف امور پر مشاورت کے ساتھ ساتھ ان کی نگرانی بھی کرے۔ ان 15ارکان میں جناب انور حسین ہدایت اللہ‘ جناب محمد ہاشم گزدر‘ جناب غلام علی جی الانہ‘ جناب وہاب شمس الحسن‘ جناب اکبر علی ‘ جناب الحاج ملک باغ علی‘ جناب سردار اے کے گبول‘ جناب صدیق وہاب‘ جناب نعیم الدین ولی بھائی‘ جناب خان عبداللہ خان‘ جناب سہراب کے ایچ‘ جناب ایس ایم سعید‘ جناب ایس اے لطیف ‘ جناب ایم ایم قریشی اور جناب ٹی موتن داس شامل ہیں۔
لوکل گورنمنٹ کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ دیہات ہو یا شہر ‘ قصبہ ہو یا محلہ علاقے کے لوگ اپنے اپنے مقامی مسئلے مقامی سطح پر حل کریں۔ اس مقصد کے لیے علاقے کے کچھ لوگ جو سب کی پسند ہوں چُنے جائیں۔ مل بیٹھ کر ان مسئلوں کو خوش اسلوبی سے حل کریں تو ایسی کسی تنظیم یا ادارے کو لوکل گورنمنٹ سے متعلق ادارہ کہہ سکتے ہیں۔پاکستان میں اس ادارے کو بار بار ختم کیا گیا جس کی وجہ سے بلدیاتی اداروں کا تسلسل قائم نہ رہ سکا اور مقامی مسائل مقامی سطح پر حل نہ ہوسکے۔ پاکستان کے قیام کے وقت بھی صوبہ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ کے تحت پنچائتیں قائم تھیں ۔12جون 1958ء کو منتخب کونسل ایک بار پھر قائم کی گئی ۔ ایس ایم توفیق میئر اور جناب جمیل احمد ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ ممبران کی تعداد 100رکھی گئی ۔7اکتوبر 1958ء کو مملکت پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا اوراسی سال 13اکتوبر 1958ئء کو ایک بار پھر منتخب کونسل کو ختم کر دیا گیا ۔1933ء کے ایکٹ کے تحت جناب ایس ایم توفیق باقاعدہ منتخب ہونے والے آخری میئر ثابت ہوئے۔اس ایکٹ کے تحت کراچی میونسپل کارپوریشن کے 15میئر منتخب ہوئے۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد کراچی سٹی میونسپل ایکٹ مجریہ 1933ء کے تحت قائم بلدیاتی نظام کا 25سالہ دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ کراچی کی بلدیاتی تاریخ کا ایک اہم اور سنہری دور تھا۔ 
1959ء میں پاکستان میں بنیادی جمہوری نظام ایکٹ مجریہ 1959ء کے توسط سے ایک بار پھر نئے بلدیاتی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ اس ایکٹ کے تحت بلدیاتی انتخابات کے لیے 11اپریل 1960ء کو میونسپل ایڈمنسٹریشن آرڈیننس مجریہ 1960ء نافذ کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت 1960ء میں ہونے والے پہلے انتخاب میں دونوں صوبوں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو برابر کی بنیاد پر نمائندگی دیتے ہوئے چالیس ‘ چالیس ہزار یعنی پورے ملک میں 80ہزار بی ڈی ممبر منتخب کیے گئے۔ 
کراچی میں 94 یونین کمیٹیوں کے پہلے مرحلے پر شہریوں نے اپنے اپنے علاقوں سے بی ڈی ممبر منتخب کئے۔ اس کے بعد بی ڈی ممبران نے اپنی اپنی یونین کمیٹیوں کے لیے چیئرمین منتخب کیے اس طرح 94یونین کمیٹیوں کے لیے 94چیئرمینوں کا انتخاب کیا گیا۔ بعد میں بی ڈی ممبران نے بلدیہ کراچی کی رکنیت کے لیے یونین کمیٹیوں کے 94چیئرمینوں میں سے 30گروپ چیئرمین کو منتخب کیا۔ حکومت کی جانب سے بھی 24ارکان کو نامزد کیا گیا ۔ دو خواتین اور دو اقلیتی ارکان کا انتخاب بھی کیا گیا۔اس انتخاب میں چیئرمین کے عہدے پر حکومت کا نامزد کردہ سرکاری افسر جبکہ وائس چیئرمین ‘خواتین اور اقلیتی ارکان کی دو‘ دو نشستوں پر بلدیہ کراچی کے ارکان انتخاب کیا کرتے تھے۔1960ء میں بلدیہ کراچی میں پانچ کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں ان میں تعلیمی و سماجی بہبود کمیٹی‘ صحت کمیٹی‘ پلاننگ و ڈیویلپمنٹ کمیٹی‘ تعمیرات اور مارکیٹنگ کمیٹی اور مالیات کمیٹی شامل تھیں۔1960ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی بلدیہ کونسل کے لیے حکومت نے جناب ممتاز احمد ای سی کیو سی ایس پی کو چیئرمین کی حیثیت سے نامزد کیا۔ یہ بلدیہ کراچی کے پہلے چیئرمین تھے جو اس عہدے پر 1960ء تک فائز رہے۔ بلدیاتی کونسل بی ڈی چیئرمینوں پر مشتمل تھی۔ بی ڈی نظام کے خاتمے کے بعد بلدیاتی نظام ایک بار پھر تعطل کا شکار ہوگیا۔ بلدیہ کراچی کے انتظامی ڈھانچے پر ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر کیا جاتا رہا۔ 2مارچ 1961ء کو مسلم عائلی قوانین کا مجریہ 1961ء نافذ ہوا۔ یونین کمیٹیوں کے چیئرمینوں کو بالحاظ عہدہ عائلی قوانین کے تحت طلاق کے نفاذ سے قبل فریقین کے نمائندوں کو مصالحت کی ترغیب اور ناکامی کی صورت میں 90دن بعد طلاق کے مؤثر ہونے پر پہلی بیوی کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کو جرم قرار دینے اور خلاء سے متعلق اختیارات تفویض کیے گئے۔مصالحتی عدالتوں کے آرڈیننس مجریہ 1961ء کا اجراء ہوا جو یکم مارچ1962ء سے نافذ کیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت کچھ عدالتی اختیارات بھی کونسلرز کو تفویض کیے گئے۔ میونسپل ایڈمنسٹریشن ترمیمی ایکٹ مغربی پاکستان 1965ء کے تحت میونسپل کمیٹیوں میں سرکاری ارکان کی تقرری کا طریقہ کار ختم کرتے ہوئے کراچی میں قائم 94یونین کمیٹیوں کے چیئرمین کو بلدیہ کا رکن قرار دے دیا گیا۔ میونسپل آرڈیننس مجریہ 1960ء کے تحت دوسرے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا اور بلدیہ کراچی کے 103ارکان پر مشتمل کونسل معرض وجود میں لائی گئی۔ 
حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں کے افسران کو بالحاظ عہدہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے سرکاری ممبران بھی نامزد کیے گئے۔ ان میں کراچی کے 24مختلف ادارے شامل تھے۔ 1966ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں چھ کمیٹیوں کا انتخاب عمل میں لایا گیا ان میں مالیات‘ تعلیم اور سماجی بہبود‘ پلاننگ و ڈیویلپمنٹ‘ صحت عامہ‘ تعمیرات اور متفرق کاموں کی کمیٹیاں شامل تھیں۔25مارچ 1959ء کو ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا گیا لیکن 1959ء کے تحت قائم ہونے والے بلدیاتی نظام کو برقرار رکھا گیا۔ 15جون 1971ء کو بنیادی جمہوریت ایکٹ مجریہ1959ء کے تحت قائم ملک کی تمام منتخب کونسلوں کو ختم کر دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی بنیادی جمہوریت کے نظام کا ایک بار پھر خاتمہ ہوگیا۔ 1960ء سے 1971ء تک حکومت کی جانب سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے درج ذیل صدر نشین یا چیئرمین مقرر کیے گئے ۔جناب ممتاز احمد سی ایس پی آفیسر 14نومبر 1960ء تامئی 1961ئ‘ سید منیر حسین سی ایس پی آفیسر 25مئی 1961ء تا 28اگست 1961ء ‘ جناب بریگیڈیئر مرزا حامد حسین جن کا تعلق پاکستان آرمی سے تھا 28اگست 1961ء تا 28جنوری 1963ء تک چیئرمین کے عہدے پر فائز رہے‘ ایم ضیاء الدین خان سی ایس پی آفیسر 8فروری 1963ء تا 12اپریل 1964ء ‘ سید سردار احمد سی ایس پی آفیسر 13اپریل 1964ء تا 31اکتوبر 1964ء ‘ ایم ضیاء الدین خان سی ایس پی آفیسر 2نومبر1964ء تا 7فروری 1966ء ‘ جناب پرویز بٹ سی ایس پی آفیسر 8فروری1966ء تا 11اگست 1968ء ‘ جناب ابرار حسن خان پی سی ایس 16ستمبر1968ء تا پندرہ جنوری 1971ء ۔1972ء میں سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آڈیننس مجریہ 1972ء نافذ کیا گیا لیکن بد قسمتی سے اس آرڈیننس کے تحت ملک بھر میں کبھی بھی انتخابات منعقد نہیں کیے گئے۔ 1976ء میں کراچی میونسپل کارپوریشن کا درجہ بڑھا کر اسے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی کردیاگیا۔ 5جولائی 1977ء کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور تمام منتخب اداروں کو توڑ دیا گیا۔ 2جولائی 1979ء سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس  1979ء ملک میں نافذ کر دیا گیا۔ اس آرڈیننس کے تحت 1960ء کے آرڈیننس میں قائم چیئرمین اور وائس چیئرمین کے عہدے کو میئر اور ڈپٹی میئر بنا دیا گیا۔ 1971ء سے لے کر 1979ء تک بلدیہ کراچی کو حکومت کے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی کو چلاتے رہے۔ ان میں ابرار حسن خان(تمغۂ پاکستان)15جون 1971ء سے مارچ 1972ء تک‘ایم ایم عثمانی27مارچ 1972ء سے ستمبر1972ء تک ‘ جناب مظہر رفیع 4ستمبر 1972ء سے اکتوبر1973ء تک ‘ جناب ایم اے مجید اکتوبر 1973ء سے دسمبر1977ء او رجناب بریگیڈیئر (ر) پی وی گیلانی جنوری 1978ء سے نومبر1979ء تک ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ 
1979ء میں ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی 145عام نشستوں کا انتخاب ہوا۔ 21مخصوص نشستوں میں سے 8خواتین کے لیے‘8ورکرز کے لیے اور 5غیر مسلموں کے لیے مخصوص تھیں۔ 9نومبر 1979ء کو میئر کراچی کا انتخاب ہوا اور آئندہ چار سال کے لیے عبدالستار افغانی میئر اور عمر یوسف ڈیڈھا ڈپٹی میئر منتخب ہوئے۔ 22اکتوبر 1979ء کو منتخب ایوان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ شہر میں فراہمی و نکاسی آب کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لیے کے ایم سی نے اپنا ذیلی ادارہ ادارۂ فراہمی و نکاسی آب 1983ء میں قائم کیا۔ بلدیاتی نظام کے پہلے چار سالوں میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بہت تیز رہی ۔ شہر کے بڑے بڑے مسائل فراہمی و نکاسی آب ‘ سڑکوں کی تعمیر و ترقی‘ روشنی کے انتظامات‘ ناجائز تجاوزات کا خاتمہ‘ کچی آبادیوں کو مستقل کرنا‘ کھیلوں کے میدان اور تفریحی سہولتوں کی فراہمی نے شہری منتخب ادارے کی حیثیت واضح کردی کہ شہری مسائل کا حل مقامی منتخب ادارے کے ذریعے ہی ہو سکتاہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے بعد نئی کونسل وجود میں آئی اور مختلف ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا گیا۔ 1979ء میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کے منتخب ارکان پر مشتمل 15کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان میں مالیات کمیٹی‘ تعمیرات کمیٹی‘ صحت کمیٹی‘ سماجی ثقافتی اور کھیلوں کے امور سے متعلق کمیٹی‘ کچی آبادی کمیٹی‘انتظام اراضی کمیٹی‘ انتظام جائیداد کمیٹی‘ پانی و سیوریج کمیٹی‘ اطلاعات و تعلقات عامہ کمیٹی‘ قانونی معاملات ‘ اشیائے خوردنی کمیٹی‘ ایجوکیشن کمیٹی‘ رابطہ و نگرانی کمیٹی‘ انتظامی امور کمیٹی او رمتفرق امور سے متعلق کمیٹی بنائی گئی۔ 22اکتوبر 1979ء کو منتخب ایوان کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ 1979ء میں ہی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں کنٹونمنٹ بورڈز قائم کیے گئے جو 5تا 25ارکان پر مشتمل تھے۔ بورڈ کے آدھے ارکان براہ راست بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب کیے گئے جبکہ باقی آدھے ارکان حکومت کے نامزد کردہ تھے۔ اسٹیشن کمانڈر عہدہ کے لحاظ سے کنٹونمنٹ کا سربراہ بنایا گیا جبکہ نائب صدر کا انتخاب بورڈ کے ارکان کے ذریعہ کیا گیا۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء کے تحت ہونے والے پہلے انتخاب میں چارسال کی مدت کے لیے 168ارکان پر مشتمل کونسل وجود میں آئی ۔1981ء میں پنچائیتی نظام رائج کیا گیا جس کے تحت ہر حلقہ سے منتخب ہونے والا شخص جو بلدیہ کا منتخب رکن ہوتا تھا وہ پنچائیت کا چیئرمین بھی تھا۔ جبکہ کونسل کی منظوری سے ہر حلقے میں دو ارکان پنچائیت نامزد کیے جاتے۔ اقلیتی ارکان بلدیہ بھی پنچائیت کا چیئرمین ہوتا تھا اور کونسل کی منظوری سے اقلیتی پنچائیت کے لیے دو ارکان نامزد کیے جاتے تھے۔ صوبہ سندھ وہ پہلا صوبہ تھا جہاں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت کچھ عدالتی اختیارات عوام کے منتخب نمائندوں کو تفویض کیے گئے تاکہ لوگوں کو سستا اور جلد انصاف میسر آسکے۔ حکومت جو قانون بناتی ہے وہ بھی شہریوں کے درمیان ان کے حقوق کے مفادات کے درمیان اور ان کی سہولتوں اور آسائشوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کے لیے بناتی ہے اور جب کوئی اس قانون کو توڑتا ہے تو اسے ضرور تکلیف ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب بھی کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کو فوری نتائج مل جانے چاہئیں تاکہ وہ دوبارہ اس امر کا مرتکب نہ ہو جس سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور دوسرے لوگ بھی متنبہ ہوجائیں کہ اگر کوئی ایسے شخص کی پیروی کرے یا ساتھ دے تو اس کو بھی ایسے ہی نتائج بھگتنے پڑیں۔
برصغیر پاک و ہند میں پہلی بار پنچائیوں کو یہ عدالتی ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء کے تحت قائم کیے ہوئے مقدمات کا فیصلہ کریں اس طرح سے کونسلر حضرات اور پنچائیت کے اراکین پر اپنے انتخابی حلقے میں بلدیاتی امور کے سلسلے میں دوہرے فرائض سونپے گئے۔پنچائیت کی تشکیل ‘ متعلقہ کونسلر اور کونسل کی جانب سے دو نامزد ارکان پر مشتمل تھی۔ حلقے کا کونسلر پنچایت کا چیئرمین تھا۔ اقلیتی برادری کے لیے علیحدہ پنچائیت بنائی گئی جس کا منتخب کونسلر چیئرمین اور اقلیتی برادری کی طرف سے دو اراکین لیے گئے۔ پنچائیت کے تقریباً پندرہ بلدیاتی فرائض ترتیب دئے گئے۔ 1981ء میں SLGO 1979ء  کے تحت دوسری بار بلدیاتی انتخابات کروائے گئے اور تعداد 166سے بڑھا کر 232کر دی گئی۔ دوسری میعاد کے لیے کونسلروں کا انتخاب 29ستمبر 1983ء کو ہوا۔ 7نومبر 1983ء کو میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوا اور 14نومبر 1983ء کو منتخب ارکان نے اپنے عہدے سنبھال لیے۔ اس میعاد کے لیے ایک بار پھر عبدالستار افغانی کو میئر  اور عبدالخالق اللہ والا  ڈپٹی میئر  منتخب ہوئے۔ اس بار خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھا کر 20اور مزدوروں یا ورکرز کی نشستیں 10کر دی گئیں۔اس طرح یہ نیا ایوان 232منتخب نمائندوں پر مشتمل تھا۔ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے دن کونسل کا پہلا اجلاس ہوا جس میں منتخب میئر عبدالستار افغانی نے اعلان کیا کہ وہ ایوان میں اسلامی اور جمہوری روایت قائم کریں گے۔ ڈپٹی میئر نے انہیں شہری مسائل کے حل کے لیے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ 9دسمبر 1983ء کو کراچی ڈویژنل رابطہ کمیٹی کا دوسری میعاد کے لیے انتخاب ہوا اور رابطہ کمیٹی کے چیئرمین مظفر ہاشمی منتخب کیے گئے۔ 18جنوری 1984ء کو بلدیہ کراچی کا پانچ گھنٹے کا طویل اجلاس ہوا جس میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کو بلدیہ کی تحویل میں لینے کے لیے 42رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جبکہ 202پنچائیوں کے ارکان کے ناموں کی منظوری اور بلدیہ کی کمیٹیوں جن کے اراکین کی تعداد کا تعین اور ملازمین کے مطالبات کی فہرست کی منظوری دے دی گئی۔ شہری امور کو بہتر طور پر چلانے کے لیے کمیٹیوں کی تعداد 15سے بڑھا کر 18کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جو اس بات کا مظہر تھا کہ عوامی منتخب نمائندے شہر کے ترقیاتی اور فلاحی کام عوام کی امنگوں کے مطابق کرنے کا عزم لے کر آئے ہیں۔12فروری 1987ء کو بلدیہ کی منتخب کونسل ختم کر دی گئی اور ایک ایڈوائزری کونسل بنا دی گئی۔ 1987ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس میں 5نومبر کو ایک چوتھی ترمیم کے ذریعے کراچی میں دو سطحی بلدیاتی نظام رائج کر دیا گیا۔ کراچی کے اس وقت کے چار اضلاع میں زونل میونسپل کمیٹی قائم کر دی گئی جن میں زونل میونسپل کمیٹی شرقی ‘زونل میونسپل کمیٹی وسطی‘ زونل میونسپل کمیٹی جنوبی اور زونل میونسپل کمیٹی غربی شامل تھی۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1979ء میں چوتھی ترمیم کے بعد ہر زونل میونسپل کمیٹی کے ایک تہائی ممبران بلدیہ کے رکن منتخب ہوتے تھے اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ارکان کی تعداد صرف 77رہ گئی جن میں شرقی سے 22‘ وسطی سے18‘ غربی سے 11اور جنوبی سے 16ارکان شامل تھے۔7ورکرز اور 3خواتین کو بھی منتخب کیا گیا۔ 
8جنوری 1988ء سے 18جولائی 1992ء تک کراچی کے میئر کی حیثیت سے ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے فرائض انجام دیے۔ ان کے ساتھ عبدالرازق خان ڈپٹی میئر منتخب ہوئے بعد ازاں جواں سال مقرر اور رہنما متین یوسف کو کراچی کا ڈپٹی میئر منتخب کیا گیا۔ 1991ء میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کا حصہ بنا دیا گیا اور اسی سال ڈاکٹر فاروق ستار کی کوششوں سے بلدیاتی ادارے کے پہلا میڈیکل کالج کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا باقاعدہ افتتاح موجودہ وزیراعظم نواز شریف نے کیا ۔ اس موقع پر سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق علی بھی موجود تھے۔ اس پروگرام میں میزبانی کے فرائض ڈپٹی میئر کراچی متین یوسف نے انجام د یے تھے۔ اور تقریب میں معززین شہر کی ایک بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ میئر فاروق ستار نے اس کالج میں کسی بھی قسم کا کوٹہ رکھنے سے انکار کیا اور تمام داخلے میرٹ کی بنیاد پر دیے جانے لگے۔ انہی کے دور میں کراچی کا پہلا فلائی اوور ناظم آباد فلائی اوور کی تعمیر کا آغاز ہوا جبکہ علمی ‘ ادبی ‘ سماجی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں میئر کراچی نے اپنا بھرپور حصہ لیا اور کراچی کی تعمیر و ترقی میں ایسا کردار ادا کیا کہ کراچی جدید دور میں داخل ہوا۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم جب ورلڈ کپ جیت کر آئی تو میئر کراچی نے ان کے اعزاز میں ایک شاندار شہری استقبالیہ کا اہتمام کیا جس میں صوبہ سندھ کے وزیراعلیٰ اور متحدہ قومی موومنٹ کے چیئرمین عظیم طارق سمیت اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ اس تقریب میں ورلڈ کپ میں شامل تمام کھلاڑیوں کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی طرف سے سونے کے تمغے پیش کیے گئے اور انہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ یہ پروگرام بارہ دری پولو گرائونڈ میں منعقد کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی میزبانی کے اعزاز راقم الحروف کے حصے میں آیا۔ 
ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے دور میں کراچی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ شہر کے مختلف اداروں کو بھی اس بات پر قائل کیا کہ وہ کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ وہ کراچی کے ہر دلعزیز میئر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے اور کراچی کو لاتعداد منصوبوں کے ساتھ ساتھ پانی‘ سیوریج‘ سڑکوں‘ باغات‘پلوں اور فلائی اوورز بھی تعمیر کر کے دیے۔ انہی کے دور میں فیڈرل بی ایریا میں کراچی کا پہلا تعلیمی باغ بھی بنایا گیا۔اُن کے دروازے شہریوں کے لیے ہمیشہ کھلے رہے ۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے براہ راست میئر کراچی سے رابطے میں رہے جس کے باعث انہیں شہریوں نے اپنا پسندیدہ میئر قرار دینے لگے۔ ڈاکٹرفاروق ستار نے جب میئر کراچی کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو وہ دنیا کے سب سے کم عمر میئر تھے۔ 
1994ء میں کراچی میں ضلع ملیر کے نام سے نئے ضلع کا قیام عمل میں آیا۔ 25ستمبر 1994ء کو کراچی میں قائم تمام زونل میونسپل کمیٹیز ختم کرنے کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی میں ایک بار پھر ضم کر دی گئیں۔ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس مجریہ 1979ء ملک بھر میں 13اگست 2000ء تک نافذ رہا اور 2001ء میں سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء نافذ کر دیا گیا۔ 1992ء سے 2001ء تک بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہوئے اور حکومت سندھ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے انتظام کو چلانے کے لیے ایڈمنسٹریٹرنامزد کر تی رہی اس دوران 13ایڈمنسٹریٹرز نے اپنے فرائض انجام دیے ان میں مرزا کریم بیگ‘ سید مسعود عالم رضوی‘ سید فیصل سعود‘ جناب فہیم الزماں خان‘ سید انظار حسین زیدی‘ جناب صبغت منصور‘ سید ارشد علی‘ جناب مشاہد اللہ خان‘ اقبال احمد زبیدی اور بریگیڈیئر عبدالحق شامل تھے۔ 6اگست 2001ء کو نیا بلدیاتی نظام متعارف کرا دیا گیا اور 14اگست 2001ء سے اسے نافذ العمل کر دیا گیا۔ اس نظام کے تحت تین سطحی بلدیاتی حکومتیں قائم کی گئیں۔14اگست 2001ء میں منتخب میئر کی حیثیت سے جناب نعمت اللہ خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ طارق حسن نائب ناظم کی حیثیت سے منتخب ہوئے۔2001ء میں شہری ضلع حکومت کراچی قائم ہوئی اور اس نے نئے قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دینا شروع کیے۔
پاکستان میں تبدیل شدہ نظام کے تحت جو 14اگست 2001ء سے شروع ہوا اٹھارہ ٹائون اور 178یونین کونسلوں اور ایک سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کا قیام عمل میں لایا گیا ۔انتخابات کے بعد ان اداروں کے ممبران کی مجموعی تعداد 3800سے زائد تھی۔ نومنتخب سٹی ناظم نعمت اللہ خان اور نائب ناظم محمد طارق حسن نے کراچی کے مرکزی پارک گلشن جناح بارہ دری میں ایک بہت بڑی تقریب میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا اور 14اگست کو اتوار کی تعطیل کے باعث 15اگست 2001ء کو چارج سنبھالا۔سٹی کونسل بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ممبران کی تعداد 255تھی جنہیں اگلے چار سال کے لیے کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے قانون سازی کرنی تھی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے کونسل ہال میں ان ارکان کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں تھی اس لیے کونسل کے اجلاس ٹینٹ لگا کر منعقد کیے گئے۔ بعد ازاں ہال کی تزئین نو کی گئی ۔ محکمہ ورکس اینڈ سروسز بلدیہ عظمیٰ کراچی نے ای ڈی او ماسٹر پلان اور ممتاز آرکیٹکچر ضیغم جعفری کی تیار کردہ ڈیزائن کے مطابق ہال کی تزئین نو کی اور 17دسمبر 2004ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔ قبل ازیں شہری ضلع کونسل کا پہلا اجلاس سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے قیام کے ٹھیک ایک ماہ بعد 14ستمبر 2001ء کو منعقد ہوا اور قانون کے مطابق پہلے اجلاس سے سٹی ناظم کراچی نعمت اللہ خان نے خطاب کیا۔ شہری ضلع نائب ناظم کی عدم موجودگی میں شہری ضلع کونسل کے اجلاس چلانے کے لیے پینل آف پریذائڈنگ آفیسر کے انتخاب کا طریقہ کار طے کرتے ہوئے شہری ضلع کونسل نے تین پریذائڈنگ آفیسرز کے پینل کا انتخاب کیا گیا۔ جناب مسلم پرویز‘ جناب غلام عباس اور جناب انجینئر عبدالعزیز کو چُنا گیا۔سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی کارکردگی کی نگرانی کے لیے 27کمیٹیاں منتخب کی گئیں اس کے علاوہ دفعہ 39میں درج تفصیل کے مطابق ضابطہ اخلاق ‘ انصاف‘ کھیلوں اور ثقافت‘ ضلع حسابات ‘کھیت پیداوار کمیٹیوں کا انتخاب بھی کیا گیا۔ شہری ضلع کونسل نے اپنے معاملات چلانے کے لیے کنڈیکٹ آف میٹنگ بنانے تھے جو شہری ضلع کونسل نے تیار کیے۔ اس کے علاوہ شہری ضلع کونسل نے ضابطہ نکاح رجسٹریشن سے متعلق معاملے کی منظوری بھی عطا کی۔ ضلع کونسل نے قرار داد نمبر58‘ 15مئی 2002ء کے تحت ممبران کے اعزازیے کی شرح بھی مقرر کی ۔ 
سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے اپنے دور اقتدار میں کراچی میں مختلف ترقیاتی منصوبے شروع کیے جبکہ مختلف ٹائون میں ماڈل پارک کے نام سے خوبصورت پارک بھی تعمیر کیے۔ کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا قیام عمل میں لایاگیا اور مختلف شاہرائوں اور پُلوں کی تعمیر مکمل کی گئی۔14اگست2005ء میں انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی شہری ضلع حکومت کراچی کے لیے سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال اور نائب ناظم محترمہ نسرین جلیل منتخب ہوئیں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر منتخب ہوئیں۔ 3جنوری 2006ء سے شہری ضلع کونسل نے اپنے فرائض انجام دینا شروع کیے۔ شہری ضلع حکومت کراچی کے آرڈیننس کی دفعہ 42 (2)کے تحت کونسل کو سال میں 50اجلاس منعقد کرنا تھے۔کونسل نے اپنے پہلے سال میں 51سیشن منعقد کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ شہری ضلع حکومت کی جانب سے کوئی بھی معاملہ موصول ہونے پر جلد از جلد کونسل کے روبرو پیش کیا جائے۔ آرڈیننس کی دفعہ 45 (5)کے تحت شہری ضلع نائب ناظم کی عدم موجودگی کی صورت میں اجلاس کی صدارت کے لیے پینل آف پریذائڈنگ آفیسرز کا انتخاب کیا گیا اور 23فروری 2006ء کے اجلاس میں مسعود محمود کو سینئر پریذائڈنگ آفیسر‘ احسن صدیقی اور رفیق احمد کو پریذائڈنگ آفیسر منتخب کیا گیا۔ شہری ضلع کونسل کی 33نگراں کمیٹیاں بھی منتخب کی گئیں اور مختلف امور کی انجام دہی کے لیے ان کمیٹیوں کے ممبران بھی منتخب کیے گئے۔ 
مصطفیٰ کمال نے اپنے دور اقتدار میں کراچی کو جدید اور ترقیاتی یافتہ کراچی بنانے میں دن رات ایک کیااور اپنے فرائض تندہی سے ادا کیے اور ان کی کارکردگی کے باعث انہیں دنیا کا دوسرا بہترین میئر بھی قرار دیا گیا۔ اُن کے زمانے میں کراچی میں سڑکوں‘ پُلوں اور فلائی اوورز کا جال بچھایا گیا اور 12فیملی پارکس بنائے گئے۔ کراچی کا سب سے بڑا پارک باغ ابن قاسم کلفٹن‘ بیچ ویو پارک تعمیر کیے گئے اور جھیل پارک کے رقبے سے تجاوزات ختم کر کے پارک کو ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ مزار قائد سے صدر کے لیے ایک نئی شاہراہ بنائی گئی جبکہ سپر ہائی وے سے ایئر پورٹ آنے کے لیے بھی ایک نئی اور طویل شاہراہ تعمیر کی گئی جو بظاہر ناممکن نظر آتی تھیں۔کراچی میں انڈر پاسز اور کوریڈورز تعمیر کیے گئے ‘ سی این جی بسوں کا آغاز کیا گیا‘ صدر میں پارکنگ پلازہ کی تعمیر کی گئی ‘ بس ٹرمینل حب ریور روڈ تعمیر کیا گیا‘ سمندر سے میٹھے پانی کی لائنیں ڈال کر بھٹ شاہ اور دیگر علاقوں کو پانی سپلائی کیا گیا۔ کراچی کے مختلف علاقوںمیں سیوریج نظام کو بہتر کیا گیا ۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کراچی میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی اور متعدد ملکوں کے وفود نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ یہاں سرمایہ کاری کی جا سکے۔سوک سینٹر سے ملحق پلاٹ پر سید مصطفیٰ کمال نے 46منزلہ آئی ٹی ٹاور بنانے کی منصوبہ بندی کی جس کے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا لیکن بوجوہ یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ سید مصطفیٰ کمال ہی کے زمانے میں شہریوں کی حفاظت اور رہنمائی کے لیے کمیونٹی پولیس کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں 1500سے زائد نوجوانوں کو ملازمت فراہم کی گئی اور انہیں باقاعدہ تربیت دے کر شہریوں کی رہنمائی کے لیے تعینات کیا گیا ۔ بعد ازاں اس کا نام سٹی وارڈن رکھا گیا۔رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں آج بھی یہ سٹی وارڈن افطار کے اوقات میں ٹریفک کو کنٹرول کر کے شہریوں کو بروقت گھر پہنچنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ آئی اون کراچی کے نام سے ایک نمائندہ تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ کراچی میں رہنے والے مختلف طبقات اور فرقہ کراچی کو اپنا شہر سمجھتے ہوئے اس کی تعمیر و ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں ۔
 مصطفیٰ کمال اور منتخب نمائندوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جس کے باعث کراچی ایک ترقی یافتہ شہر نظر آنے لگا۔ صفائی ستھرائی ‘ سولڈ ویسٹ سسٹم کو بہتر کیا گیا۔ دنیا کے مختلف شہروں کے ساتھ سسٹرسٹی کے معاہدے کیے گئے جس کے باعث کراچی کے تعمیراتی کاموں کو دنیا بھر میں بے انتہا سراہا گیااور کراچی کے شہریوں نے بھی اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ نائب ناظم کراچی محترمہ نسرین جلیل نے بلدیہ عظمیٰ کی شہری ضلع کونسل کو انتہائی عمدہ طریقے سے چلایا اور کراچی کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے قانون سازی کی جبکہ انہوں نے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ناظمین کو بھی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایوان میں بولنے اور قانون سازی میں حصہ لینے کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔ نائب ناظم کراچی محترمہ نسرین جلیل نے کراچی کی ثقافتی زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے ہر سال ہمارا کراچی کے عنوان سے تقریبات کا انعقاد کیا جس میں ملکی اور غیر ملکی مندوبین شریک ہوئے۔ ملازمین کی تربیت  اور ان کی استعداد کار بڑھانے کے لیے انہوں نے سٹی انسٹیٹیوٹ آف امیج مینجمنٹ کا قیام بھی عمل میں لایا جبکہ کراچی کی بلدیاتی تاریخ اور انتہائی پرانے نقشہ جات کو محفوظ کرنے کے لیے آرکائیو ڈپارٹمنٹ بھی قائم کیا جس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی میں محفوظ ڈیڑھ سو سے دوسو سال پرانے نقشہ جات ‘ احکامات اور تاریخ کو محفوظ کرنے کے کام شروع کیا گیا ۔ ہمارا کراچی پروگرام کے تحت ہر سال منعقد ہونے والے پروگراموں میں نہ صرف کراچی کی تاریخ کو اجاگر کیا گیا بلکہ ا دبی ‘ علمی‘ ثقافتی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں کراچی کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد شرکت کرکے کراچی سے اپنی محبت کا اظہار کرتی رہی۔ 
سٹی ناظم سید مصطفیٰ کمال نے 24فروری 2010ء تک اپنے فرائض انجام دیے ۔ اُن کی مدت پوری ہوتے ہی شہری ضلع کونسل بھی اختتام پذیر ہوگئی اور ایک بار پھر حکومت سندھ نے ایڈمنسٹریٹر نامزد کرنا شروع کردیے۔ 2010ء سے 2016ء تادم تحریر 8ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کراچی میں بحیثیت ایڈمنسٹریٹر اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان میں لالہ فضل الرحمن ‘ محمد حسین سید ‘ سید ہاشم رضا‘ثاقب سومرو‘ رئوف اختر فاروقی‘ روشن علی شیخ‘ شعیب احمد صدیقی اور موجودہ ایڈمنسٹریٹر افتخار علی شالوانی شامل ہیں۔ ثاقب سومرو4اگست 2013ء سے 21نومبر 2013تک پہلی بار اور 9جنوری 2015ء سے 25جون 2015ء تک دوسری مدت کے لیے ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تعینا ت ہوئے۔یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ایڈمنسٹریٹر کراچی رئوف اختر فاروقی کو سندھ ہائیکورٹ نے اپنی دستاویزات میں عمر میں تین سال بڑھانے کے مقدمے میں عہدے سے فوری ہٹائے جانے کا حکم صادر کیا جس کے باعث انہیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔جبکہ ایڈمنسٹریٹر کراچی ثاقب سومرو جون 2015ء میں جرمنی چلے گئے اور وہاں سے لوٹ کر واپس نہیں آئے جس کی وجہ سے حکومت سندھ نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا ۔ یہ دونوں واقعات بلدیہ عظمیٰ کراچی کی تاریخ میں ایک اہم واقعہ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے ۔ملک بھر میں ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت ملک بھر میں ایک بار پھر دس سال کے بعد تین مرحلوں میں بلدیاتی انتخابات منعقدکیے گئے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں 5دسمبر 2016ء کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں 208یونین کونسلوں کے لیے شہریوں نے اپنے نمائندوں کا انتخابات کیا ۔ان انتخابات میں جو سیاسی بنیادوں پر منعقد ہوئے پاکستان کی سرکردہ سیاسی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
 کراچی میں ایک بلدیہ عظمیٰ کراچی ‘ چھ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن اور ایک ضلع کونسل کراچی میں بلدیاتی فرائض انجام دیں گے جبکہ 6کنٹونمنٹ بورڈز اس کے علاوہ ہیں جن کے فرائض بھی کم و بیش بلدیاتی امور کی انجام دہی ہے۔ منتخب ہونے والے یونین کونسلوںکے چیئرمین بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ممبر کی حیثیت سے جبکہ وائس چیئرمین اپنے اپنے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے ممبر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض انجام دیں گے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کا ایوان 308ارکان پر مشتمل ہوگا ۔69خواتین‘ 10کسان مزدور ‘10نوجوان ‘10اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کا مرحلہ ابھی باقی ہے ان سیٹوں کے لیے کاغذات نامزدگی 22جنوری تک جمع کرائے جا چکے ہیں۔کراچی میں مجموعی طور پر مختلف کیٹیگریز کی 1457نشستوں کے لیے پولنگ ہوگی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی 99‘ ضلع کونسل کراچی کی 19‘ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن وسطی کراچی کی 26‘ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن غربی کراچی کی 21‘ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کورنگی کراچی کی 18‘ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن شرقی کراچی کی 16‘ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن جنوبی کراچی کی 16اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن ملیر کراچی کی 7 مخصوص نشستیں ہیں۔ یونین کمیٹیوں کی تعداد 209ہے جبکہ ان مخصوص نشستوں کی تعداد 1045ہے۔ یونین کونسلوں کی تعداد 38ہے جبکہ ان کی مخصوص نشستوں کی تعداد190ہے۔8فروری اور 14فروری 2016ء کو ان سیٹوں پر انتخابات کے بعد کراچی کے بلدیاتی اداروں کی نشستوں کی تعداد اس طرح سے ہوگی ۔بلدیہ عظمیٰ کراچی 308 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ ضلع کونسل کراچی 57ارکان پر مشتمل ہوگی۔ ضلع وسطی 77ارکان ‘ ضلع غربی 67ارکان‘ ضلع شرقی 47‘ ضلع جنوبی 47‘ ضلع کورنگی55‘ ضلع ملیر 20ارکان پر مشتمل ہوگی۔ 209یونین کمیٹیوں کے ارکان کی تعداد2299 اور38یونین کونسلوں کے ارکان کی تعداد 418ہوجائے گی۔ مخصوص نشستوں پر انتخاب کے بعد یہ ارکان اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے اور اس کے بعد کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب عمل میں آئے گا جبکہ اپنے اپنے ضلعو ں میں ارکان ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے بلدیاتی انتخاب میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد کراچی کے میئر کے لیے سابق وزیر داخلہ اور بلدیات وسیم اختر اور ڈپٹی میئر کے لیے ارشد وہرہ کو نامزد کیا ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کی جانب سے میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے اب تک کوئی نام سامنے نہیں آیا ہے۔ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن شرقی ‘ ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن وسطی اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن جنوبی میں اکثریت کی بنیاد پر یہ بات یقینی ہوچکی ہے کہ ان تینوں اضلاع میں متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ارکان چیئرمین اور وائس چیئر مین منتخب ہوں گے۔جبکہ ضلع غربی میں پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ ضلع جنوبی اور ضلع ملیر میں پاکستان پیپلز پارٹی اس بات کی دعویدار ہیں کہ اُن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان ہی چیئرمین منتخب ہوں گے۔
کراچی کے شہری اس وقت لاتعداد بلدیاتی مسائل کا شکار ہیں جن میں سڑکوں کی تعمیر ‘ پینے کے صاف پانی کی فراہمی‘ سیوریج نظام کی بہتری‘ ٹریفک سسٹم‘ کچرے کے ڈھیروں ‘ برساتی نالوں کی صفائی ‘ گلی محلوں کی سڑکوں اور مین شاہرائوں کی درستی ‘ تباہ حال پارکوں کی آبیاری اور کھیلوں کے میدانوں کی درستی سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔ کراچی کے شہری اپنے منتخب نمائندوں سے اس بات کی توقع رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ اپنے عہدوں کا چارج لینے کے بعد انہیں ان مسائل سے نہ صرف نجات دلائیں گے بلکہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں ‘ رنگوں اور امنگوں کا شہر بنائیں گے تاکہ کراچی ایک بار پھر دنیا کے دوسرے شہروں کی طرح ترقی کی منازل تیزی سے طے کر سکے۔ 

مزیدخبریں