تُو کانٹوں میں اُلجھ کرزندگی کرنے کی خُو کر لے 

Sep 14, 2020

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

قرضوں کا نام کوئی بھی ہو ملکی غیر ملکی یا گردشی سب کے دیندار عوام ہیں۔ بجلی اور گیس چوری پیشہ ور چور ڈاکو نہیں صارفین کرتے ہیں اسے محکمانہ کاغذوں میں لائن لاسز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لاہور میں نیب نے چھاپہ مار کر سابق ایکسائز انسپکٹر کے گھر سے 33 کروڑ کیش برآمد کیا۔ شاید ہی کوئی انسپکٹر (پولیس کسٹم، انکم ٹیکس، فوڈ سینٹری ، ایکسائز) ایسا ہو جو کروڑ پتی نہ ہو۔ نیب کے پاس چھاپوں کے لئے اتنا وقت ہے نہ افرادی قوت۔ بجلی کی طرح گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ بھی بڑھ رہا ہے۔ پائپ لائن کے ذریعے ملنے والی گیس کی شرح محض 27 فیصد ہے۔ 73 فیصد صارفین زیادہ مہنگا ایندھن ایل پی جی اور مٹی کا تیل استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں اضافہ ہمارا مستقل دردِ سر ہے۔ اس وقت گیس کی ملکی پیداوار یومیہ قریب چار ارب کیوبک فٹ جبکہ کھپت چھ ارب کیوبک فٹ ہے۔ یعنی ایک تہائی کے برابر گیس کا خسارہ ہے۔ ملک میں توانائی کے مجموعی وسائل میں گیس کا حصہ 48 فیصد کے قریب ہے۔ درآمدی توانائی کو مہنگے داموں خرید کر سبسڈی پر بیچنا یقیناً قابلِ عمل نہیں۔ پاکستان میں پن بجلی کی پیداوار کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔ ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ 18 سے 20 گھنٹے تک رہی۔ کالا باغ ڈیم کوسیاسی مسئلہ بنا کر اب تک التواء میں رکھا گیا ہے۔ حکومت نے گیس کی قیمت میں ریکارڈ 143 فیصد تک اضافہ کیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل وقفوں سے اضافے کا فیصلہ کیا گیا۔ پن بجلی کے منصوبوں کی تعمیر میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس لئے تھرمل اٹامک اور ونڈمل منصوبے لگائے جاتے ہیں تاکہ وہ جلد مکمل ہو جائیں۔ درآمدی گندم کی طرح درآمدی گیس ملک کی فی الحال ضرورت ہے۔ 
عمران حکومت کی 40 فیصد مدت تمام ہو چکی ہے۔ نئے پاکستان کی شاہراہ پر ڈالنے کے لئے 61 صفحات پر مشتمل منشور سامنے لایا گیا جس میں آزادیٔ صحافت بنیادی اصلاحات بالخصوص ایف بی آر ، سول سروس ، پولیس اور قانون سازی میںاصلاحات پر زور دیاگیا تھا اسکے بعد اکانومی کا بارہا تذکرہ کیا گیا۔ 2018ء میں غربت کی لکیر سے نیچے آبادی کا 31 فیصد 70 ملین اور آج 40 فیصد اور 90 ملین پاکستانی غربت کی گدھا گاڑی پر سوار ہیں۔ 10 ملین ملازمتوں کا وعدہ کیا گیا۔ کیش لیس اکانومی کا وعدہ ہوا تو زیر گردش نوٹوں کی تعداد 4.5 کھرب روپے تھی جو اب 6 کھرب روپے ہے۔ سیاست اور کرپشن سے پاک دودھ سے دھلی پولیس کا تصور تو روئے زمین پر نہیں۔ پولیس کی روح جسم و جاں پیسہ ہے۔ پاکستان پولیس پیسہ ٹرین کے ڈبوں کی طرح جُڑے ہوئے ہیں کسی بھی انسان کے مزاج سوچ فکراور فطرت میں تبدیلی منشور اور تقریروں سے نہیں آتی۔ کیا کوئی بچھو اور سانپ کو رحم دل یا بے ضرر بنا سکتا ہے؟ کراچی پانی پانی ہو گیا لیکن سردارانِ کراچی شرم سے پانی پانی نہ ہوئے۔ کراچی والے پانی میںڈوب کر بھی پیاسے ہیں۔ سمندر اور بارش کے پانی کاایک قطرہ پی تو نہیں سکتے۔ سوشل سروس احساس پروگرام تک محدود ہے۔ گداگری کا پیشہ اپنانے کے لئے خودی اور غیرت کو ذبح کرنا ضروری ہے۔ 10 ملین پاکستانیوں کو 100 ارب روپے کی سرکاری خیرات بانٹی گئی۔ انرجی سیکٹر پر گردشی قرضے کا بوجھ 2.2 کھرب روپے ہے۔ بجلی کے بل 50 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ بل معجون مرکب ہے۔ ناروا ٹیکس بھی بجلی کے کھاتے میں شامل ہیں۔ وہی سرزمین وہی لوگ وہی رویے وہی اُن کی بے ڈھنگی چال پھر کیسے بنے گا نیا پاکستان؟ سستی بجلی کی فراہمی اور ٹیرف میں یکسانیت کیسے ممکن ہے؟ یکساں ٹیرف کا نظام لانے سے کئی پیچیدہ مسائل حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ بجلی مہنگی ہونے سے معیشت اور گھریلو اخراجات دونوں میںاضافہ ہوتا ہے۔ ہائیڈل پاور کی پیداوار بڑھانے سے سستی بجلی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ انرجی سیکٹر کے لئے چین سے ایک علیحدہ سی پیک معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی پی کو بجلی کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی سے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ بھٹو نے ہر سال میں ایک نیوکلیئر پلانٹ لگانے کا اعلان کیا تھا مگر ہم ابتک صرف تین پلانٹ ہی بنا سکے ہیں۔ پاکستان میں سستی بجلی پیدا کرنے کے لئے بے پناہ وسائل اور سیکٹرز ہیں۔ صرف ان سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں پہلے تین چار دہائیوں سے بجلی کی پیداوارمیں اضافہ کے مقابلے میں نرخوں میں اضافہ تشویش ناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے اور بینکوں کے شرح سود میںاضافے سے معاشی ترقی میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ بجلی کے شعبے میں 35 فیصد سے بھی زائدنقصان بشمول چوری ہے۔ پاکستان میں سالانہ تین چار ارب ڈالر کا تیل درآمد کیا جاتا ہے جبکہ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ 3 سے 5 ارب ڈالر ہے۔ بلوچستان میںسرمایہ کاری لانے کی غرض سے اسلام آباد میں سہولت مرکز قائم کیا گیاہے جہاں سرمایہ کاروںکو ترغیبات کے ساتھ ان کی رہنمائی کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے بقول کراچی کے مسائل کے حل کے لئے دس ارب ڈالر درکار ہیں جو نہ سندھ کے پاس ہیں نہ وفاق کے پاس۔ عبدالستار افغانی ، نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے ادوار میں کم وسائل سے ترقی کیسے ہوتی رہی۔ مراد علی شاہ کے پاس شہر کو کچرے کے ڈھیروں سے پاک اور نالوں کی صفائی کرنے کے لئے بھی وسائل نہیں؟ آج کل اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ زیربحث ہیں۔ نیشنل فنانس کمشن 1951ء میں تشکیل دیا گیا۔ بنیادی مقصد ملک کے محصولات اور آمدنی کی  وفاق اور صوبوں میں منصفانہ تقسیم تھا۔ موجودہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 57.5 فیصد جبکہ وفاق کو 42.5 فیصد فنڈز ملتے ہیں۔ نئے دسویں ایوارڈ میں پی آئی اے‘ ریلوے‘ واپڈا‘ سٹیل مل‘ ڈیمز اور دفاعی اخراجات بھی صوبوں سے شیئر کرنے کی تجویز ہے۔ اگر صوبوں کے فنڈز میں 15 فیصد کٹوتی ہوتی ہے تو صوبوں کا شیئر 40 اور وفاق کا 60 فیصد ہو جائے گا۔ اس ترمیم کیلئے بھی دوتہائی اکثریت درکار ہے۔ 

مزیدخبریں