سانحہ موٹر وے پر ہر دل دکھی ہے اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ظلم بھی جاری ہے۔ ان حالات میں بھی سیاست دان روایتی بیانات میں الجھے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ برسوں تک حکومت کرنے والے وہ لوگ جن کے اپنے ادوار بھی ایسے تکلیف دہ واقعات سے بھرے پڑے ہیں وہ بھی بڑھ بڑھ کر بیانات جاری کر رہے ہیں۔ ان بیانات کا مقصد صرف اور صرف حکومت کو نقصان پہنچانا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا ہے۔ ماضی میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ الزامات کی سیاست نے قوم کی تعمیر اور احساس کا پہلو کہیں دفن کر دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ دہائیوں سے اس مکروہ نظام نے عام آدمی کی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ عزتیں غیر محفوظ ہیں، بچے خوف کی فضا میں اور مظالم سہتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں۔ ان حکمرانوں سے کوئی پوچھے انہوں نے عام آدمی کا طرز زندگی بلند کرنے کے لیے کچھ کیا ہے تو یقیناً جواب نفی میں ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ پہلو توجہ طلب ہے کہ مجرمانہ سوچ کو دفن کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا، نظام قانون اور نظام انصاف کا گلا گھونٹا گیا ہے۔ یہ اس گندگی سیاست کے نتیجے میں ہوا ہے جس کا کم و بیش پینتیس برس سے اس ملک کے عوام کو سامنا ہے۔ بدقسمتی سے ایسے سانحات پر سیاست کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس بیان بازی میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا تازہ بیان ہے۔ احسن اقبال فرماتے ہیں کہ موٹر وے سانحہ میں جن ملزمان کی نشاندہی ہوئی ہے حکومت انہیں گرفتار کرے۔ ملزمان کی شناخت لیک ہونے سے انہیں فرار ہونے کا موقع ملا۔ ملزمان کی نشاندہی کے بعد حکومت کو رازداری سے کام لینا چاہیے تھا۔ احسن اقبال کو خبر ہونی چاہیے کہ سانحہ موٹر وے کے ملزم ملک و قوم کے ملزم ہیں۔ ان کی اس حرکت کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہ آپ کی مسلسل حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ آپ نے اور آپ کے سیاسی بزرگوں نے ملک میں نظام قانون اور نظام انصاف کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ آپ کی جماعت کی مسلسل حکومت میں قانون کی بالادستی کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو وہ عوام کے سامنے پیش کریں، نظام انصاف کا معیار بلند کرنے کے لیے اگر کچھ کیا ہے تو بتائیں۔ آج اگر لوگ بے خوف ہیں انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں یا حدیں پار کرنے ہر سزا کا کوئی خوف نہیں ہے تو یہ ملک و قوم پر یہ ظلم آپ کی حکومت نے کیا ہے۔ آج اس سانحے پر حکومت کو ضرور تنقید کا نشانہ بنائیں یہ جس کی نالائقی کی وجہ سے ہے اسے بھی برا بھلا کہیں لیکن قوم کو یہ بھی بتائیں کہ جیسے آپ کی جماعت نے عدالتی نظام کو تباہ کیا، عدالتوں ہر حملے کیے، ججوں کے ساتھ آپ کے سیاسی قائدین کی آڈیو ٹیپس جاری ہو چکی ہیں۔ آج ہونے والے جرائم کے ذمہ دار موجودہ حکمران ہیں تو ایسے جرائم پیشہ عناصر کو پھلنے پھولنے کے مواقع آپ کے طرز حکومت نے دیے ہیں۔ قوم کو پورا سچ بتائیں۔ آج بھی وقت ہے کہ قوم کو سچ بتائیں اس ملک پر اس کے معصوم شہریوں پر رحم کریں۔ بیانات کی سیاست سے باہر نکل کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کریں۔ حکومت پاکستان کی ہے، جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا یا جنہوں نے آپ کے سیاسی مخالفین کو ووٹ ڈالا سب پاکستانی ہیں۔ انہیں پاکستانی سمجھ کر آگے بڑھیں۔ ٹانگیں کھینچنے اور جھوٹ بولنے کی سیاست میں ہم پہلے ہی بہت نقصان کر چکے ہیں مزید کتنا بوجھ عوام پر ڈالنا چاہتے ہیں؟؟
یو ای ٹی ہاؤسنگ سوسائٹی سے خواجہ اصغر احمد لکھتے ہیں کہ رواں برس مارچ میں لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں مکان کی فروخت کے لیے این او سی کی درخواست جمع کروائی تھی سینئر سیٹیزن ہوں ریاست کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق تمام ادائیگیاں کرنے کا خواہش مند ہوں۔ مارچ ستمبر تک مسلسل ایل ڈی اے دفاتر کے چکر لگا رہا ہوں ہار مرتبہ ایک نئے کاغذ کا تقاضا ہوتا ہے تمام تقاضے اور قانونی طریقے پورے کر چکا ہوں لیکن شاید ایک ایسا معیار پر ابھی تک پورا نہیں اتر سکا کہ جس کے کرنے سے میری درخواست کو پہیے لگ سکتے ہیں اور کام کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں پلک جھپکنے میں دور ہو سکتی ہیں۔ قوانین کے مطابق مکانات کی خریدوفروخت کے لیے ایل ڈی اے سے این او سی لینا شرط ہے۔ این او سی لینے کا طریقہ کار اتنا پیچیدہ، سست اور طویل ہے کہ اس مقصد کے لیے ایل ڈی اے جانے والا ہر شخص دوسرا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ون ونڈو صرف ڈاکخانے کا کام کرتا ہے ابتدائی طور پر خط و کتابت کے لیے پندرہ روز کا وقت دیتا ہے پھر انتظامیہ مرحلہ وار کاغذات کا مطالبہ کرتی ہے اس سلسلہ میں مناسب طریقہ کار کہیں بھی آویزاں نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں بائیو میٹرک پھر شناختی کارڈ چیک کیا جاتا ہے پھر کئی ماہ انتظار کے بعد مالک مکان کی حاضری لگائی جاتی ہے پھر ایل ڈی اے جائیداد کے کاغذات کا اپنے ریکارڈ کے ساتھ تقابل کرتا ہے پھر لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اپنے مختلف شعبوں سے تصدیق کا کام کرواتا ہے۔ پھر این او سی کے لیے درخواست جمع کروانے والے معزز شہری کو کچہری سے سیل ایگریمنٹ کی مصدقہ نقل لانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اسکے بعد کئی قسم کے بیان حلفی کی ضرورت پیش آتی ہے یہ کام کرنے کے بعد یوٹیلیٹی بلز کی کاپیاں طلب کی جاتی ہیں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایل ڈی اے یوٹیلیٹی بلز کی جمع کروائی گئی کاپیوں کو مسترد کر دے ان کے پاس اختیار ہے پھر اخبار میں اشتہار بھی دے دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود این او سی جاری کرنے کے لیے شاید کچھ اور بھی ضروری ہے۔ اس عمل کی کوئی سرکاری فیس بھی ہے اگر کوئی شہری صرف اس فیس تک محدود رہتے ہوئے این او سی لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ سارا عمل اتنا مشکل کیوں ہے۔ تمام کاغذات اور مطلوبہ دستاویزات جمع کروانے کے بعد بھی ایل ڈی اے کا عملہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیا اس محکمے کے ڈائریکٹر جنرل یا اس محکمے کی وزیر جانتے ہیں کہ این او سی جاری کرنے کے نام پر ادارے میں کیا ہو رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے جیسے نجانے کتنے ہی افراد اس تکلیف دہ، طویل اور پیچیدہ عمل سے گذرتے ہوں گے۔ بہت سوں کی ہمت راستے میں جواب دے جاتی ہو گی، کئی ایسے ہوں گے جو شروع میں ہی درخواست کو پہیے لگا دیتے ہوں گے لیکن جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہر شہری کو اس کا حق درخواست کو پہیے لگائے بغیر دیا جائے تو پھر اسے کتنے مہینے درکار ہوں گے۔ لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ووٹ دیا تھا لیکن بدقسمتی سے نہ مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ ہی سرکاری اداروں کے کام کرنے میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ کوئی ساٹھ ستر سال کا شخص کتنے چکر لگا سکتا ہے۔ حکام اس پر توجہ دیں اور اس کام سے منسلک جڑے افراد کی کارکردگی کا جائزہ لیں۔ عوام کے لیے سہولیات پیدا کریں وہ لوگ جو سرکار کو فیس دینا چاہتے ہیں انہیں کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ سرکار کی فیس کے ساتھ ساتھ ریاست کے ملازمین کی فیس بھی ادا کریں۔
وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر نے کورونا وائرس کا شکار حمزہ شہباز کے حوالے سے شہباز شریف کو کہا ہے کہ آپ چاہتے ہیں کہ بھائی کی طرح صاحبزادے کو بھی لندن بھیج دیں۔ حمزہ شہباز کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت عطاء فرمائے۔ مشیر داخلہ کچھ بھی کہیں انہیں حق حاصل ہے لیکن شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ چند روز قبل سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے سانحہ موٹر وے کے بعد متاثرہ خاتون کے سفر کرنے کے انداز پر تنقید کی تھی۔ وہ کوئی وقت نہیں تھا ہو سکتا ہے بعض حلقوں کے نزدیک ان کی باتیں ٹھیک بھی ہوں لیکن ان باتوں کا وقت نہیں تھا۔ سی سی پی او لاہور نے پٹرول ختم ہونے کا حوالہ دیا اگرپٹرول ختم نہ ہو گاڑی خراب ہو جائے تو کیا پھر بھی وہ کوئی اور عذر پیش کرتے۔ اسی طرح شہزاد اکبر کو حمزہ شہباز کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کے بعد ان کی بیماری پر بیرون ملک جانے کا طعنہ یقیناً سیاسی ماحول کی شدت میں اضافہ کرے گا پھر ایسے بیانات کی ضرورت کیوں ہے۔ جہاں تک تعلق نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کی ہے تو شہزاد اکبر اور ان کی حکومت اس سے بخوبی واقف ہے کہ وہ کیسے گئے ہیں اور ان کی روانگی میں حکومت کا کیا کردار رہا ہے۔ شہزاد اکبر حکومت میں ہیں میاں نواز شریف کو وطن واپس لائیں، آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف اور پاکستان تحریکِ انصاف کے دیگر اہداف سے لوٹی ہوئی دولت واپس لیں کسی نے روکا نہیں ہے نہ ہی کوئی رکاوٹ ہونی چاہیے کیونکہ ان کے پاس طاقت بھی ہے اور اختیار بھی ہے۔ اگر پھر بھی کامیاب نہ ہو سکیں تو ذرا ان ووٹرز کے مسائل پر بھی توجہ دیں جنہوں نے برسوں سخت موسموں میں پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے اس سوچ کے ساتھ دھکے کھائے تھے کہ ان کی جماعت حکومت میں آئے گی تو سب مسائل حل ہو جائیں گے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ لوگون کو لاہور جیسے شہر میں بھی آٹا ڈھونڈنے کے لیے کئی کئی کلو میٹرز کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ چینی سو روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔ ادرک سات سو سے آٹھ سو روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ آلو ایک سو پچیس سے ایک سو پچاس روپے کلو فروخت ہو رہے ہیں۔ سبزیاں پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ عام آدمی کو اس سے غرض نہیں ہے کہ میاں نواز شریف جیل میں ہیں یا باہر، حمزہ شہباز شریف کی ضمانت ہوتی ہے یا نہیں، مریم نواز شریف بیانات جاری کرتی ہیں یا نہیں عام آدمی کے مسائل روزانہ کھانا پینا اور اہلخانہ کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنا ہے حکومت کو وقت ملے تو اس طرف ضرور توجہ دے۔ اپوزیشن بیانات جاری کرتی ہے لیکن حکومت کو تو صرف بیانات جاری نہیں کرنے چاہئیںحکومت کو تو فیصلے کرنے چاہئیں اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا ہے۔