عجب پالیسیاں ہیں ملک میں!

اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان بھر میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے نرخ ناموں نے تباہی مچا دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف بی آر کا سپرسٹورز اور ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر پوائنٹ آف سیلز کا معاملہ حل نہیں ہو سکا۔ تاجروں کے وفد نے سپرسٹورز کا ایف بی آر کے ساتھ پوائنٹ سیلز کا مسئلہ حل کروانے کیلئے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ جس نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹرن اوور ٹیکس سپرسٹورز نے نہیں دینا بلکہ ڈسٹری بیوٹرز اور مینوفیکچررز نے ادا کرنا ہے۔ صدر لاہور چیمبر عرفان اقبال شیخ نے لاہوری سپر سٹورز ایسوسی ایشن کے وفد کو تعاون کی یقین دہانی کروا دی ہے۔اب آتے ہیں ملک بھر میں منافع خوروں کے راج کی طرف۔ سبزیوں کی قیمتوں میں کمی نہیں آسکی۔ سرکاری نرخ نامے میں سات سبزیوں کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا‘ لیکن کسی بھی علاقے میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نظر نہیں آئے۔ سبزیوں کی قیمت میں اضافہ ناقابل معافی ہے۔ ٹماٹر 80 روپے سے 100 روپے مہنگا ہو چکا ہے جبکہ پیاز 60 روپے تک۔ لہسن چائنہ تین سو روپے‘ ادرک چھ سو روپے فی کلو اور لیموں ایک سو پچاس روپے فی کلو تک جا چکے ہیں۔ پاکستانی شہریوں کا دعویٰ ہے کہ حکومت صرف اور صرف عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کرتی ہے جبکہ عملی طورپر سبزیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی اقدامات سامنے نظر نہیں آتے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اگر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات نہیں کر سکتیں تو کم از کم اپنے جاری کردہ نرخ نامے کے مطابق ہی سبزیوں کی فروخت کی اجازت دیدی جائے۔ اس وقت تک سبزیاں سرکاری ریٹس کے مطابق فروخت نہیں ہو سکتیں۔ لاہور شہر اور دیگر شہروں میں برائلر کی رسد میں کمی کے باعث ہوشرباء اضافہ ہو چکا ہے۔ مرغی کا گوشت بیس روپے کلو مہنگا ہو چکا ہے۔ زندہ مرغی تیرہ روپے اضافے کے ساتھ ایک سو چھتیس روپے جبکہ برائلر گوشت انیس روپے اضافے کے بعد ایک سو ستانوے روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے۔ لاہوری شہریوں نے اعلان کیا ہے کہ ماڈل بازاروں کی اشیائے خوردونوش کی کوالٹی بہترکرتے ہوئے قیمتیں مزید کم ہونی چاہئیں تاکہ غریب پاکستانی کو زیادہ سے زیادہ سہولت مل سکے۔ ایسے وقت میں حکومت کو چاہئے کہ غریبوں کو حقیقی ریلیف فراہم کرے۔ لاک ڈائون کے اثرات اور روزبروز بڑھتی ہوئی گرانی نے عوام الناس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اب آتے ہیں آٹے کی طرف۔ ملک بھر میں آٹا 80 روپے فی کلو فروخت ہونے لگا ہے۔ غلہ منڈیوں میں گندم کی قیمت میں اضافے کو جواز بناتے ہوئے آٹا چکی مالکان نے چکی آٹے کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ چکی آٹا 78 روپے سے بڑھ کر80 روپے فی کلو فروخت ہونے لگا ہے۔ چکی مالکان کا کہنا ہے کہ گندم امپورٹ کرنے کے باوجود غلہ منڈیوں میں گندم کی قیمت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت گندم دو ہزار چار سو روپے من سے تجاوز کر چکی ہے جس کے باعث چکی آٹے کی قیمت 74 روپے فی من مقرر کر دی گئی ہے۔ چکی مالکان کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت گندم کی قیمت میں کمی کر دے تو بآسانی آٹا سستا ہو سکتا ہے۔پاکستانی عوام نے اعلانات کئے ہیں کہ ماڈل بازار میں جو اشیاء کم نرخ پر دستیاب ہیں‘ ان کے معیار میں فرق ہے۔ اعلیٰ معیار کی چیز یہاں بھی مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہے۔ پاکستانی عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ اشیائے خوردونوش کے معیار کو بہتر کرتے ہوئے ان کی قیمتیں مزید کم ہونی چاہئیں تاکہ پاکستان کے غریب عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولت مل سکے۔ پاکستانی عوام کی رائے اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستانی انتظامیہ کو اپنے ساتھ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک کرنا چاہئے۔ پاکستانی معیشت کو لاک ڈائون کے سبب مزید جھٹکا لگا ہے۔ لہٰذا پاکستان معاشی طورپر بہت پیچھے چلا گیا ہے اور اسے دوبارہ اصل حالت میں لانے کیلئے وقت درکار ہوگا۔ اسی طرح روزگار کی بندش کے سبب عام پاکستانی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جو تاحال پہلے والی معاشی حالت میں نہیں آسکا۔ ایسے وقت میں پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ وہ غریب عوام کو حقیقی معاشی آسانیاں دینے کے اقدامات اٹھائے۔ پانچ چھ ماہ کے لاک ڈائون سے جہاں پاکستان معاشی طورپر بہت پیچھے چلا گیا ہے لہٰذا اسے دوبارہ پہلے والی حالت میں لانے کیلئے وقت درکار ہوگا۔ اسی طرح روزگار کی بندش کے باعث بھی عام پاکستانی سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی حکومت پر لازم ہے کہ وہ عام پاکستانی غریب عوام کو حقیقی ریلیف مہیا کرے۔ لاک ڈائون کے اثرات کی وجہ سے غریب پاکستانیوں کو اپنے گھروالوں کو دو وقت کی روٹی کے حصول کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن