جنگ ستمبر کے ہیرو،نشان حیدر اعزاز حاصل کرنے والے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کا 55واں یوم شہادت گزشتہ روز منایا گیا۔میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے12ستمبر65ء کوپاک بھارت جنگ کے دوران لاہور کے محاذ پر جام شہادت نوش کیاانہیں پاکستان کی مسلح افواج کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ہمارے قومی ہیروز کی تکریم کرنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے ۔ساتویں و آٹھویں جماعت کی عمر سے ہی یوم ستمبر یعنی 6 ستمبر یوم دفاع پاکستان جب قریب آنے لگتا تو ریڈیو پر ملی نغمے اور پاک افواج کے سپوتوں کی بہادری کی داستانیں میرا لہو گرما دیتی، سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا اور دل میں یہ جزبہ در آتا کہ کاش میں بھی پاک فوج کی وردی میں اس جنگ میں شریک ہوتا دسویں جماعت سے ہر سال میجر عزیز بھٹی شہید کی برسی پر میں اکیلا اپنے آپ میں ایک ایک جوش و ولولہ لئے لادیاں( گجرات ) انک آخری آرام گاہ پر درجنوں دفعہ فاتحہ خوانی اور انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے حاضر بھی ہوا ہوں اور ان کے عزیز واقارب اور اھل علاقہ سیمل بیٹھنے کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں اور گریجویشن کے بعد ملک کے طول وعرض میں دیگر جگہوں پربھی ان شہداء کو سلام پیش کرنے کے مواقعے میسر آئے جن شہداء کا پاک لہو اِس دھرتی کی مٹی میں شامل ہے جنھوں نے اِس وطن کی مٹی کی آبیاری خود اپنے خون سے کی ہے جسکی وجہ سے آج ہم آزادی کے گیت گا رہے ہیں۔جنہوں نے مادر وطن کی آن ،بان، شان اور اسکی عظمت کے لیے جانیں دی تھیں، جنھوں نے اپنا آج قوم اور ملک کے مستقبل کے لئے قربان کر دیا ان شہداء کے خون کا قرض بھلا کون اتار سکتا ہے ۔سلام ہے ان ماوں کو جنہوں نے چٹان جیسے حوصلے کے حامل نوجوانوں کو جنم دیا
پاک افواج کی شجاعت ، بہادری اور جذبہ شہادت کی داستانیں دراصل اْن عظیم جنگجو ہیروز کو خراجِ تحسین ہے، جن کے یقین ، اعتماد اور عزم نے 1965 ء کی جنگ میں ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ۔ آج بھی پاکستانی افواج اپنے ان عظیم ہیروز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ملکی دفاع کے لئے جرات ، پیشہ ورانہ مہارت اور جذبہ ایمانی کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر بقائے پاکستان تک کا سفر ہمارے شہدا کی قربانیوں سے سجا ہوا ہے۔ جب بھی ضرورت پڑی، وطن کے بیٹوں نے لبیک کہا ہے۔ پاکستان کی بنیادوں میں شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ 1965ء کی جنگ کا پس منظر یہ تھا کہ 1962 میں بھارت نے چین کو دعوت مبارزت دی مگر منہ کی کھائی۔ چین ازخود جنگ بند نہ کردیتا تو بھارت صدیوں تک ذلت کے داغ دھو نہ پاتا۔بھارت نے رن آف کچھ کے محاذ پر پاکستان سے پنجہ آزمائی کی مگر رسوائی اٹھانا پڑی۔ 8 اگست 1965ء کو کشمیری مجاہدین نے مقبوضہ کشمیر میں انقلابی کونسل قائم کی جبکہ9 اگست 1965ء کو سارے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا ایک طویل ترین اور کبھی بند نہ ہونے والا ایک زبردست مزاحمتی سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک 2020 میں اس سے کئی گنا زیادہ شدومد اور جذبے کے تحت جاری ہے-
جنگوں کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم دوم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی سیالکوٹ کے علاقے چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔
مختصر اور جامعہ تبصرہ جنگی امور کے ماہر ٹائم کے رپورٹر لوئس کرار (Louis Karrar) نے لکھا ہے ’’ Who can defeat a nation which knows how to play hide and seek with death’’یہ اْن شہدائ کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں 1965 اور دیگر جنگوں میں آزادی کے چراغ کو روشن رکھنے کے لیے اپنے خون کا نذرانے پیش کیے اور اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر دیا۔واقعات کی تفصیلات پیش کرنے کے بجائے یہ بیان کروں گا کہ وطن کے ان بہادر سپوتوں میں کچھ کے کارنامے تو ایسی لازوال داستانیں ہیں کہ جنہیں رہتی دنیا تک جرات و بہادری کی جاویداں مثالوں کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔دشمن قوتوں نے وہ کونسی سازش یا تخریب کاری ہے جو پاکستان میں نہیں کی مگر اللہ کے فضل و کرم سے افواج پاکستان نے دشمن کو ابتک کی تاریخ کی عبرتناک شکست دی ہے، تمام بیرونی و اندرونی دشمن مل کر پاکستان کو غیر مستحکم اور کمزور کرنے کے منصوبے پہ عمل پیرا رہے، ایک طرف پاک فوج کے خلاف انتہائی منظم اور وسیع پیمانے پہ پروپیگنڈہ مہم چلائی جاتی رہی تو دوسری طرف مختلف گروہ بدامنی میں مصروف رہے۔15 ستمبر 1965ء کو لاہور کے محاذ پرجب ایک بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر کی ڈائری ملی۔ اس ڈائری میں سنسنی خیز انکشافات بھی تھے مثلاً بھارت نے لاہور پر حملے کا منصوبہ اس وقت بنایا تھا جب مئی 1965ئ میں رن آف کچھ کے صلح نامے کی ابھی روشنائی بھی خشک نہ ہوئی تھی-میرے عرض کرنے کا اصل مقصد یہی ہے کہ آج ہمارا دشمن پہلے سے زیادہ تیاری کے ساتھ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہے۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کے کرم سے ایک ایٹمی ملک ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی وہ واحد پروفیشنل مسلح افواج ہیں جنہوں نے اپنی بے مثال قربانیاں دے کر پاکستان سے دھشت گردی کا قلع قمع کیا اور پاکستان کی اس Battle Hardened افواج سے انڈیا جنگ نہیں کر سکتا اس لئے دشمن دوسرے means کے ذریعہ پھر سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے اور علاقائی، سیاسی اور صوبائی تعصب پھیلا کر افراتفری، نفرت اور بد اعتمادی کے ماحول کو پیدا کرنے کے پھر سے مواقعے ڈھونڈ رہا ہے۔ ہمارے درمیان صاحباںِ علم کی لاعلمی اورتاریخ دانوں کی تاریک دانی سے فائدہ اٹھا کر مختلف ذرائع استعمال کر کے ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے ہماری طاقت کو کمزوری میں بدلنا چاہتا ہے-کشمیر افواج پاکستان کی اولین ترجیحات میں اول ہے اور اس کا ثبوت 1948, 1965, 1999 اور 2019 کی وسیع و محدود پاک بھارت جنگیں و جھڑپیں ہیں۔ اگر تب نامساعد حالات اور عسکری لحاظ سے کمتر فوج نے آپریشن جبرالٹر جیسے آپریشن لانچ کرکے کشمیر کو آزاد کروانے کی خاطر اپنی جان, مال اور پاکستان تک کو داؤ پر لگا دیا تھا تو ٹھنڈ رکھیں وہ آج بھی کوئی کارگر موقع گنوائیں گے نہیں۔آج کا تقاضا یہی ہے کہ دفاع وطن کے حوالے سے قوم کی نئی نسل کو یہ
بتانے, دکھانے, سمجھانے اور سنانے کی ضرورت ہے کہ ہم زندہ و بہادر قوم ہیں ، ہمارا ایک کردار ہے، انھیں سمجھائیے کہ وطن عزیز کے اداروں اور اپنے خون سے وطن کی مٹی کی آبیاری کرنے والوں کے خلاف لکھنے اور بولنے والے کبھی بھی ملک کے وفادارہو ہی نہیں سکتے اور انھیں بتائیے کہ ہم ماشاء اللہ باکردار اور باشعور قوم ہیں وہ کام جو دفاع وطن کے فلسفے کے خلاف اور جو شہداء کے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہو، اسے کسی کو بھی حب الوطنی کا لبادہ اوڑھ کر انجام دینے کی اجازت نہیں دیں گے اور اپنے قومی ہیروز کو یاد رکھتے ہوئے اب ہم نے کس انداز و کردار کے ساتھ ملک کے دفاع کو مضبوط و مربوط کرنا اور آگے بڑھنا ہے