لاہور (ندیم بسرا) پیپکو( PEPCO ) کو بجلی کی کمپنیاں حوالے کرنے کے معاہدے پر وفاقی وزیر پاور اور سیکرٹری پاور کے درمیان اختلافات عروج پر پہنچ گئے جس کے باعث گذشتہ پانچ روز سے وزارت پاور میں ہونیوالی تمام سرگرمیاں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق ملک کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سارے اختیارات "پیپکو ایجنٹ معاہدے" میں وزیر پاور عمر ایوب کو لاعلم رکھا گیا اس معاہدے کی تیاری اور منظوری کے آخری مراحل پرجب وزیر پاور عمر ایوب کو پتہ چلا تو انہوں نے سیکرٹری پاور عمر رسول پر شدید ناراضگی کا آظہار کیا ،اسی صورت حال سیکرٹری پاور وزارت کی پری پیکٹ میٹنگ کو ادھورا چھوڑ کر چلے گیے اور واپس کئی روز اپنے دفتر نہ آئے جس سے کوئی بھی میٹنگ وزارت پاور میں نہ ہوسکی۔بتایا یہی گیا ہے کہ وزیر پاور عمر ایوب نے سیکرٹری پاور عمر رسول کو کہا ہے کہ وہ اپنا بندوبست کرلیں اور یہ بات وزیر پاور نے وزیر اعظم کے نوٹس میں لائی جا چکی ہے۔دراصل اس کی ابتدا ایسے ہوئی ہے کہ موجودہ سیکرٹری پاور ایک ایسا معاہدہ لانا چاہ رہے تھے جس کو پیپکو ایجنٹ معاہدہ کہا جارہا تھا جس میں ڈسکوز کو پیپکو کے حوالے کیا جارہا تھا اور ایک سنٹرلائزڈ سسٹم سے بجلی کی کپمنیوں کے تمام اختیارات چیف ایگزیکٹوز سے واپس لیکر پیپکو دئے جانے تھے جس میں کمپنیوں کے نئے سی ای اوز مارکیٹ سے لینیاور کمپنیوں کے بورڈ آف ڈایریکٹرز کی تعیناتی بھی شامل تھیاور تمام کمپنیوں میں میٹریل کی خریداری بھی پیپکو نے کرنا تھی ۔پہلے مرحلے میں پنجاب کی پانچ کمپنیاں لاہور،گوجرانوالہ،اسلام آباد ،فیصل آباداور ملتان کمپنی شامل تھی اور کے پی کے کی ایک پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی بھی شامل تھی۔ دوسری جانب کمپنیوں میں بورڈ آف ڈایریکٹرز کے ممبران اور چئیرمین کی تعیناتی کا اہم پہلو شامل ہے۔وزیر پاور اور سیکرٹری پاور کے درمیان اختلافات اس وجہ سے بھی زیادہ ہوئے کہ چار کمپنیوں کے بورڈ آف ڈایریکٹر اور چئیرمین کو منتخب کر لیا گیا یہ منتخب شدہ لوگ "دبء کے ایک گروپ" اور ایک "ابراج کمپنی "میں کام کرنے والے لوگوں کا تھا جن کو بورڈ آف ڈائریکٹرز اور کمپنیوں کے بورڈ کے چئیرمین لگایا جانا تھا ان سابق سی ای اوز لاہور فیصل آباد۔ملتان ،کراچی سمیت دیگر کا نام بھی شامل تھا ان سابق سی ای اوز کے بارے یہ باتین مشہور ہیں کہ ان تعلق بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ رہا ہے اور یہ سابق وفاقی وزراء ن لیگ کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ان کے نام بھی فائنل کر لئے گئے تھے جس پر وفاقی وزیر شدید برہم ہوئے اور کہا کہ مجھے ان تمام معاملات سے بے خبر رکھا گیااور یہ ڈرافٹ فائنل کر لیا گیا۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی پاور کی مشاور ت سے سیکرٹری پاور عمر رسول نے ان کو فائنل ڈرافٹ کی شکل دی تھی اور اس کا ڈرافٹ وزیر اعظم آفس میں 18 اگست 2020 کا جاچکا تھا۔اس صورت حال کا جب وزیر پاور کو پتہ چلا کہ میری منظوری کے بغیر وزیر اعظم آفس کو کیسے ڈرافٹ بجھوادیا گیا اور اب فائنل میری مرضی کے بغیر مجھ تیار کیا گیا۔یہ تو پاور سیکٹر کیلئے بالکل بھی بہتر نہیں ہے۔اسی حوالے سے ذرائع کا دعوی ہے کہ پاکستان انجیرنگ کونسل نے ایک ڈرافٹ وزیر اعظم کو بھجوا دیا ہے جس میں" سنٹرلائزڈ پالیسی "کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے اور گزشتہ ہفتے ہونے والی پی ای سی کی میٹنگ میں جس میں کئی وفاقی وزراء بھی شامل تھے تو پیپکو منیجنگ ایجنٹ معاہدے کی مخالفت کی ہے اور وزیر اعظم سے کو فوری ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا۔ اس صورت حال میں وزیر پاور عمرایوب کی سیکرٹری پاور کے ساتھ اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں جس سے پاور سیکٹر اسلام آباد میں تمام کام رک گیا ہے۔