کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو!!!!

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر وسیم خان کو نے شکوہ کیا ہے کہ انہیں پاکستان سے محبت نہیں ملی۔ انہوں نے یہ شکوہ کہیں بیرون ملک کسی انٹرویو میں کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کی محبت مجھے یہاں کھینچ لائی لیکن جواب میں وہ محبت نہیں مل سکی، پاکستان کرکٹ کے سیٹ اپ کو تبدیل کرنے آیا ہوں لیکن مجھ پر ذاتی حملے کیے گئے۔
بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کا یہ بیان کرکٹ بورڈ میں موجود کم از کم ان ڈیڑھ درجن افراد کی محبت کی توہین ہے جو ان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ان میں وہ سب لوگ شامل ہیں جنہیں انہوں نے بھاری معاوضوں پر ملازمتیں دیں، جنہیں معمولی یا غیر معمولی ترقیوں سے نوازا، جنہیں بغیر کسی قابلیت کے ملکی کرکٹ کے سیاہ و سفید کا مالک بنا دیا وہ سب افراد یقیناً ان سے بے پناہ محبت کرتے ہوں گے۔ بھلے وہ نئے ریجنل کوچز ہوں، سلیکشن کمیٹی کے ارکان ہوں، میچ آفیشلز ہوں یا پھر قومی ٹیم کے کوچنگ سٹاف میں شامل افراد ہوں یا پھر کرکٹ بورڈ کی پہلی یا دوسری منزل پر موجود چند پسندیدہ افراد یہ سب اپنے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آپ ان سے محبت کرتے ہوں گے وہ آپ سے شاید بورڈ کے چیف ایگزیکٹو کا یہ بیان پڑھ کر کچھ محبت کرنے والے یہ بھی گاتے پھر رہے ہوں "کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو"
 اب ان کے علاوہ وہ کس سے محبت کی امید کر رہے ہیں، انہوں نے ملکی کرکٹ کو بہتر کرنے کیلئے اب تک کیا کارنامے انجام دیئے ہیں کہ لوگ ان کی محبت میں گرفتار ہو جائیں۔ یہ جگہ تو کارکردگی دکھانے کیلئے ہے لوگ تو ایک میچ میں ناکامی کے بعد اپنے پسندیدہ کرکٹرز کے پتلے جلا دیتے ہیں پھر وسیم خان کس خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ وہ کچھ بھی نہ کریں اور لوگ ان سے محبت کرنے لگیں۔ وہ شاید یہ بھول چکے ہیں کہ محبت تنخواہ کی طرح تعلقات کی بنیاد پر حاصل نہیں کی جا سکتی، محبت بڑے عہدوں کی بدولت حاصل نہیں ہوتی، محبت پانچ لاکھ کے کریڈٹ کارڈ سے نہیں خریدی جا سکتی، محبت بڑی گاڑیوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ محبت لینے کیلئے دل جیتنا پڑتے ہیں دلوں پر حکمرانی کرنا پڑتی ہے، محبت لینے کیلئے عوام کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں، کرکٹ کھیلنے والوں سے محبت لینے کیلئے کھیل کے میدان آباد کرنا پڑتے ہیں، میدان سے، میدان کو سنوارنے والوں سے، میدان کو آباد کرنے والوں سے پیار کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے تو سب کے گھر اجاڑ دیئے ہیں۔ میدانوں کو ویران کر دیا ہے۔ آپ نے میدانوں کو سرسبز رکھنے کیلئے اپنا رنگ سفید سے سیاہ اور بالوں کو سیاہ سے سفید کرنے والوں سے روٹی کا نوالہ چھین لیا اور خود نجانے پندرہ، بیس، پچیس یا تیس لاکھ ماہانہ تنخواہ مقرر کر کے بیٹھ گئے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ لوگ محبت میں آپکا دیدار نصیب نہ ہونے پر خودکشیاں کریں، آپ کے دیکھنے کیلئے میلوں سفر طے کریں، کرکٹ بورڈ کے دروازے پر ہر روز سینکڑوں افراد آٹو گراف کیلئے جمع ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ پاکستان کے کرکٹرز کو ٹیکسی چلانے پر مجبور کریں، کوئی کھیل چھوڑ کر ڈیلیوری بوائے بن جائے، کوئی بیٹ چھوڑ کر پھل بیچنے لگے، کوئی موقع نہ ملنے پر اپنا سامان جلا دے اس کے بعد کوئی آپ سے محبت کیوں کرے گا۔ سینکڑوں افراد کو بیروزگار کرنے، کھیل کے مواقع چھیننے، میرٹ کا قتل عام کرنے کے بعد محبت نہ ملنے کا شکوہ یہ بتاتا ہے کہ ہر وقت خیالی دنیا میں رہنے کے شوقین ہیں۔ محبت لینے کیلئے محبت کرنا پڑتی ہے۔ آپ نے تنخواہ کو محبت پر فوقیت دی سو آپ کو تنخواہ مبارک ہو۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کے لوگ بے پناہ اور بے لوث محبت کرنے والے ہیں اگر آپ ان معصوم افراد کا دل بھی نہیں جیت سکے تو یہ آپکی ناکامی ہے۔ محبت نہ ملنے کا شکوہ کرنے سے پہلے اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ رہی بات پیشہ وارانہ افراد کی تو وہ محبت لینے یا دینے نہیں اپنا کام کرنے آتے ہیں۔ آپ بھاری تنخواہ لینے آئے تھے وہ آپ کو مل رہی ہے، آپکا ایک شعبہ مسلسل آپکو دکھاتا ہے کہ بورڈ کا ہر فیصلہ درست ہے لیکن اس کا حقیقت سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ پر ہونے والی تنقید آپ کی پالیسیوں پر عدم اعتماد ہے۔ 
 وسیم خان کسی کے لاڈلے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس انداز میں انہیں انٹرویو کیلئے انگلینڈ سے کرکٹ بورڈ کے خرچے پر پاکستان بلا کر بورڈ میں بھاری تنخواہ پر اہم ترین عہدے سے نوازا گیا اس کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ ان کی تقرری خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔ اس سے زیادہ وہ کس محبت کی تلاش میں ہیں جو لوگ ان سے محبت کرتے تھے یا جن سے وہ خود محبت کرتے ہیں انہوں نے محبت نبھا تو دی ہے اور کیا کریں۔ رہی بات عوامی محبت کی تو اس کیلئے عوامی فیصلے کرنا پڑتے ہیں، عوام میں رہنا پڑتا ہے، عوام کا ہونا پڑتا ہے، ان کے دکھ درد کو بانٹنا پڑتا ہے۔ آپ نے دکھ درد کم کرنے کے بجائے کھیل سے تعلق رکھنے والے افراد کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے سو دکھوں کے جواب میں محبت کہیں نہیں ملتی۔

ای پیپر دی نیشن