لاہور (حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) قومی ٹیم کے سابق کوچ اولمپیئن توقیر ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن "جاب سنٹر" بن چکا ہے، قومی کھیل کی تباہی کی وجہ بیایمانی، اور ذاتی مفادات کا تحفظ ہے۔ ہم نے تذلیل کو قبول کر لیا ہے۔ شکست پر بے چینی اور پریشانی ختم ہو چکی ہے۔عہدوں پر آنے کے بعد ہم ملک کے بجائے اپنے خاندان کا سوچتے ہیں۔ہم اپنے ملک سے محبت نہیں کرتے، لوگ برا منائیں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے ملک سے محبت نہیں ہے۔ کراچی کی آبادی اڑھائی کروڑ ہے لیکن وہاں سے ایک لڑکا قومی ٹیم میں نہیں ہے، لاہور میں صرف دو تین جگہ ہاکی کھیلی جاتی ہے، ماضی میں باصلاحیت کھلاڑیوں کی نشوونما اور دیکھ بھال قومی فرض اور ذمہ داری سمجھ کر کی جاتی تھی، آج راستہ روکا جاتا ہے، دس سال تک ہمیں سہیل عباس نے بچائے رکھا ورنہ گذشتہ دہائی میں ہی پندرہویں سولہویں ہو جاتے، قومی کھیل کی تباہی کے ذمہ دار سب سے پہلے ہاکی اولمپیئنز ہیں، اگر سرکاری ادارے قومی کھیل کی سرپرستی نہیں کر سکتے تو پرائیویٹ سیکٹر کو آگے لائیں، جسے فیڈریشن میں نوکری مل جاتی ہے وہ خاموش ہو جاتا ہے، کیا قومی کھیل کی خدمت صرف فیڈریشن میں رہ کر کی جا سکتی ہے، وزیراعظم عمران خان نے فیڈریشن کا آئین بدلنے کے لیے کہا ہے محکموں کا کردار محدود ہونے سے ہاکی تباہ ہوئی اگر محکموں کا کردار مکمل طور پر ختم ہو گیا تو کوئی ہاکی نہیں کھیلے گا۔ یہ دنیا کا مہنگا ترین ٹیم کھیل بن چکا ہے، گول کیپر کی کٹ تین لاکھ روپے کی ہے۔ خوشامد کرنیوالے ترقی کرتے ہیں اور وہی بار بار قومی کھیل کی خدمت کے نام پر نظر آتے ہیں۔ ہاکی کھیلنے والے کم ہیں جبکہ عہدوں کے خواہشمند زیادہ ہیں۔ ہاکی پلیئر کی ریٹائرمنٹ کے بعد کھیل سے محبت جاگ جاتی ہے۔ کچھ نہیں ہو سکتا بیس سال سے ہم مار کھا رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے جب تک ہم سائنسی بنیادوں اور کھیل کے جدید تقاضوں پر کام نہیں کریں گے مار پڑتی رہے گی۔ ماضی میں ایسے لوگ موجود تھے جو ٹیلنٹ تلاش کرتے اور پھر اسے نکھارتے تھے آج کوئی اچھا کھلاڑی سامنے آتا ہے تو اس کا راستہ روکا جاتا ہے۔ ریو اولمپکس میں امریکہ کے اسی فیصد گولڈ میڈلسٹ یونیورسٹی کے طالبعلم تھے۔ ہمارے یہاں کس سکول، کالج اور یونیورسٹی میں ہاکی کھیلی جاتی ہے۔ جب تعلیمی اداروں میں ہاکی کھیلی جاتی تھی اس وقت میڈلز بھی آتے تھے۔ آج ہاکی کا نام و نشان نہیں ۔ ہم ناکامیوں کے عادی ہو چکے ہیں پورے ملک میں ادارے تنزلی کا شکار ہیں ان حالات میں قومی کھیل کی بہتری کیسے ممکن ہے۔ جو تنقید کرتا ہے اسے عہدہ دے کر خاموش کروا دیا جاتا ہے جب عہدے سے ہٹایا جاتا ہے تنقید کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ اب ایک نیا اور آسان طریقہ ہے‘ ایک یو ٹیوب چینل بنائیں یا ذاتی مفادات حاصل کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر ویڈیو جاری کر دیں کرکٹ بورڈ میں بھی ایسے لوگوں کو ملازمتیں دی گئی ہیں ہاکی فیڈریشن میں بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ صبح اٹھیں برا بھلا کہیں اور جب تک کوئی ذمہ داری نہیں ملتی برا بھلا کہتے رہیں۔ جب تک ہم ایمانداری،اخلاص اور ملک کی خدمت کے جذبے کے ساتھ کام نہیں کریں گے کبھی بہتری نہیں ہو سکتی۔ کھلاڑیوں کے مسائل حل کریں۔ ہم ہمیشہ سے انفرادی صلاحیتوں پر کامیابیاں حاصل کرتے رہے ہیں ملک میں آج بھی باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔