صدارتی خطاب: اپوزیشن کا شدید احتجاج ، حکومت مخالف نعرے، واک آئوٹ

اسلام آباد (نامہ نگار/ نمائندہ خصوصی) صدر ڈاکٹر عارف علوی کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیساتھ ہی قومی اسمبلی کے چوتھے پارلیمانی سال کا آغاز ہو گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار صدر کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے موقع پر پریس گیلری اور لائونج بند کر دئیے گئے اور صحافیوں کو کیفے ٹیریا تک محدود رکھا گیا۔ صدر مملکت کے خطاب کے دوران اپوزیشن ارکان نے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ملک میں مہنگائی و بے روزگاری اور حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن ارکان نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر حکومتی پالیسیوں کیخلاف نعرے درج تھے۔ اپوزیشن ارکان نے سپیکر کی ڈائس کا گھیرائو بھی کیا اور شدید نعرے بازی کی۔ بعدازاں پوری اپوزیشن نے احتجاجاً صدر مملکت کے خطاب کے دوران اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا اور ایوان سے واک آئوٹ کر گئے  اور پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں کے دھرنے میں ان سے اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے۔ صحافیوں نے پریس گیلری بند کرنے کیخلاف بھی پارلیمنٹ کے گیٹ اور سپیکر اسد قیصر کے آفس کے باہر دھرنا دیا اور پریس گیلری بحال کرو، کے نعرے لگائے۔ اجلاس کے آغاز میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سپیکر سے بات کرنے کی اجازت مانگی مگر سپیکر نے اپوزیشن لیڈر کو مائیک دینے کے بجائے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خطاب کی دعوت دے دی، جس پر اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کر دیا۔ اس دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنا خطاب جاری رکھا۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے حکومت مخالف شدید نعرے بازی بھی کی گئی۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت کی جانب سے مشترکہ اجلاس کے دوران پریس گیلری بند کرنے پر بھی شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے لاٹھی گولی کی سرکار، مک گیا تیرا شو نیازی، گو نیازی، آٹا، چینی چوروں کی سرکار نہیں چلے گی، نہیں چلے گی، غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی، نہیں چلے گی‘ کے نعرے لگائے گئے اور ایوان سے واک آئوٹ کر گئے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے اندر صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے اپوزیشن رہنمائوں مولانا اسعد محمود، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، مریم اورنگزیب  پہنچے۔ صدر مملکت کو ماضی کی روایات کے عین مطابق اپوزیشن کے احتجاج  کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک موقع پر  صدر مملکت  نے خطاب کے دوران پانی کے گلاس سے گھونٹ لیا  اور اپوزیشن کے احتجاج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے زور سے بولنا پڑا اس لئے پانی پینا  پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خطاب میں میڈیا کی خدمات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور  پارلیمان کی پریس گیلری کی جانب نظر ڈالی تو وہ انہیں خالی نظر آئی۔ اس پر انہوں نے بات تو نہیں کی مگر ہاتھ کے اشارے سے حیرانگی کا اظہار کیا۔

ای پیپر دی نیشن