ہر گزرتے دن کے ساتھ طالبان افغانستان پر اپنا تسلط مضبوط تر کر رہے ہیں۔ امریکہ نے 9/11کے بعد افغانستان پر یلغار کرکے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا۔ امریکہ کو اس وقت شمالی اتحاد نے مکمل طور پر سپورٹ کیا جس کے انعام میں شمالی اتحاد والوں کو اقتدار میں بڑا حصہ دیا گیا۔ افغانستان کے نائب صدر امر صالح اور رشید دوستم جیسے لوگ نوازے جانے والوں میں شامل تھے۔ اب افغانستان میں جو بڑی تبدیلی آئی ہے وہ شمالی اتحاد کے سرے سے وجود کا خاتمہ ہے۔ طالبان اپنے دورِ حکومت میں شمالی اتحاد کیخلاف مسلسل برسرپیکار رہے مگر اسکے اقتدار کا خاتمہ نہ کر سکے۔ آج بغیر لڑائی کے شمالی اتحاد کے اس دور میں زیر قبضہ علاقوں پر بھی طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ ایک ہلکی سی مزاحمت وادی پنج شیر سے ہوئی احمدشاہ مسعود کے بیٹے احمد شاہ نے زندگی میں کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے۔ امریکہ اور بھارت نے غلط گھوڑے کو آگے بڑھا دیا اور شاہ کو جنگجو بنانے کی کوشش کی جو خاک میں مل گئی۔ امر صالح اور احمد شاہ نے راہِ فرار اختیار کر لی۔ امریکہ اور بھارت کی طالبان کے سامنے ایک قوت کھڑی کرنے کی سازش دم توڑ گئی۔طالبان نے 22اگست 2021ء کو افغانستان پر قبضہ کرنا شروع کیا اور چند دنوں میں دنیا کی واحد سپر پاور کو کارنر کر دیا۔ ملک میں خونریز اور خانہ جنگی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ اشرف غنی کی بزدلی سے یہ خدشات دور ہو گئے۔ اشرف غنی کو سابق صدر نجیب اللہ کا بھیانک انجام نظر آ رہا تھا جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اسے اقوامِ متحدہ کے دفتر سے نکال کر پھانسی لگائی اور اس کی لاش سرِعام ایک پول سے کئی دن لٹکائے رکھی۔ اب طالبان کافی بدل چکے ہیں۔ انکے کئی ممالک کے ساتھ رابطے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت کو چین،سعودی عرب اور روس نے تسلیم کر لیا ہے۔ جرمن بھی تسلیم کر رہے ہیں۔جرمنی کا یہ اقدام یورپی یونین کے لیے پیروی کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان نے بھی جلد یا بدیر ایسا کرنا ہے۔
طالبان کے رویوں میں نرمی عالمی برادری میں اس کے امیج کو بہتر بنا رہی ہے۔ گذشتہ روز حیران کن طور پر کابل اور قندھار میں طالبات نے طالبان کے حق میں ریلیاں نکالیں۔ لڑکیوں نے بینر اٹھا رکھے تھے کہ ہم خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور طالبان حکومت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان طالبات نے سکارف اوڑھے ہوئے تھے۔ طالبان کوئی سختی نہیں کر رہے۔ انتقامی کاروائیوں کے تحفظ بھی بے بنیاد ثابت ہوئے۔ طالبان کے سب سے بڑے دشمن ا ور قاتل حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ جیسے لوگ کابل میں موجود اور محفوظ ہیں۔طالبان کابینہ کا اعلان گذشتہ ہفتے کیا گیا جبکہ حلف برداری 11ستمبر کو اس روز منعقد کی گئی جب امریکہ میں نائن الیون کی 20ویں برسی منائی جا رہی تھی۔ اس روز امریکہ میں صف ماتم بچھی ہوتی ہے۔ اس سال طالبان کی طرف سے اپنی حکومت کی شروعات اور جشن امریکیوں کیلئے تازیانہ تھا۔ یہ حلف برداری امریکہ اور اسکے حامیوں کے سینے پر مونگ دلنے والی بات تھی۔ امریکہ کو افغانستان سے ذلیل و خوار ہو کر نکلنا پڑا۔ بھارت بھی دُم دباکر رفو چکر ہوا۔ امریکہ نے اپنی شکست تسلیم کی اور ان لوگوں کے حوالے اقتدار کیا جن سے چھینا تھا اور جن کو دہشتگرد قرار دیتا تھا۔ امریکہ کو ہر طرف سے ناکامیوں کا سامنا ہے۔ عراق میں وہ اپنی فتح کے شادیانے بجا رہا ہے۔ یہ تو دھول بیٹھنے پر پتہ چلے گا کہ وہاں وہ کتنا کامیاب ہوا ۔ گردوغبار چھٹنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ادھر لیبیا میں بھی حالات امریکہ کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ کرنل قذافی کو بے دردی سے قتل کیا گیا اب اس کا بیٹا منظرعام پر آگیا ہے۔ بعید نہیں اگلے چند ماہ میں اقتدار میں آ جائے۔
قارئین!سینے پر مونگ دلنے سے مجھے یاد آیا کہ گذشتہ روز پورے پاکستان کی 42کنٹونمنٹ ایریا میں تقریباً286وارڈز میں کنٹونمنٹ الیکشن کروائے گئے ۔یہی دیہی بلدیاتی الیکشن سے ملتا جلتا نظام ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ یار لوگوں نے عملی طور پر بلدیاتی الیکشن میں جانے سے پہلے کنٹونمنٹ الیکشن کروا کر یہ پتا کر لیا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ کنٹونمنٹ کے الیکشن نتائج کے مطابق پی ٹی آئی63 سیٹیں لیکر پہلے نمبر پر جبکہ مسلم لیگ ن59 سیٹیں لیکر دوسرے نمبر پر جبکہ اتنی ہی تعداد میں آزاد امیدوار منتخب ہوئے۔ پیپلزپارٹی 30سیٹیں لینے میں کامیاب ہوئی جبکہ کراچی کنٹونمنٹ میں ایم کیو ایم اور پی ایس پی بھی چند سیٹیں لینے میں کامیاب ہو چکے،جب کہ جماعت اسلامی بھی دو سیٹیں لیکر شہیدوں میں نام لکھوانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔میرے اپنے تجزیے کے مطابق اگلے سال فروری مارچ میں ہونے والے متوقع بلدیاتی الیکشن میں نتائج بھی ان نتائج سے کچھ ملتے جلتے ہوں گے۔بہرحال ابھی تو کرونا کے مضمرات اور افغانستان کے حالات نے اپوزیشن کے خوابوں پر پانی پھیر دیا ہے اور اسے ہی کہتے ہیں ’’سینے پر مونگ دلنا‘‘