پاکستان نے اگست 2020میں اپنا نیا نقشہ جاری کیا جس میں کشمیر اور لداخ کے ساتھ ساتھ سرکریک اور جونا گڑھ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کشمیر اور لداخ تو مسلم اکثریتی علاقے ہیں اس لیے سب ہی جانتے ہیں ایسا کیوں کیا گیاہے ،سر کر یک کے بارے میں بھی عوامی آگہی کسی حد تک موجود ہے تاہم جونا گڑھ جو ایک متنازعہ مسئلہ ہے کو وقت کے ساتھ ساتھ بھلا دیا گیا تھا لیکن اس نقشے سے دوبارہ لوگوں کے ذہن میں تازہ ہو گیاہے اور اس لیے اب اس پر بات کی جانے لگی ہے جو پہلے بھی کی جانی چاہیئے تھی کیونکہ یہ اقوام متحدہ کے کاغذوں میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ مسلم انسٹیٹیوٹ اسلام آباد نے آج اسی سلسلے میں ایک قومی کانفرنس کا اہتمام کیا ہے اور مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی جس میں اپنی ذاتی مصروفیات کی بنا پرشرکت کرنا تو میرے لیے ممکن نہیں تاہم ان کے اس قومی مقصد میں اپنے اس کالم کے ذریعے شریک ہونے کی کوشش کی ہے تاکہ پاکستان کے عوام میں اس بارے میں آگاہی پیدا کی جا سکے۔ تقسیم ہند کے وقت ہندوستان میں 565خود مختار ریا ستیں موجود تھیں جن میں جونا گڑھ دوسری بڑی مسلمان ریاست تھی اور ساتھ ہی ایک خوشحال ریاست بھی تھی ۔ تقسیم کے وقت اس ریاست کے حکمران نواب محمد مہابت خان جی تھے جن کا خاندان تقریباََدوسوسال سے یہاں حکمران تھا۔ تقسیم ہند کے تین جون کے اعلان کے بعد برطانوی پارلیمنٹ نے 18جولائی1947کو آزادیٔ ہند ایکٹ منظور کیا اور ساتھ ہی آزاد ریاستوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ بھارت یا پاکستان جس کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں۔ اسی اختیار کے تحت ہندو اکثریتی ریاست جونا گڑھ کے مسلمان حکمران نے 15اگست1947کو پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تاہم پاکستان نے اسے ایک ماہ بعد یعنی 15ستمبر1947کو منظور کیا ۔ایک ماہ کی تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ قائد اعظم چاہتے تھے کہ کشمیر کا راجہ فیصلہ کر لے تو پھر ہی وہ کوئی قدم اُٹھائیں لیکن بھارت نے خاموشی اختیار رکیے رکھے تاہم پاکستان کے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ہی اس نے 16ستمبر کو ریاست جونا گڑھ میں اپنی افواج بھجوادیںاور اس کے لیے تو جیہہ یہ پیش کی کہ قائداعظم ہی کے بقول ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جو اکٹھی نہیں وہ سکتیں تو یوں ریاست کے پاکستان کے ساتھ مل جانے سے اس میں حالات خراب ہو جائیں گے جبکہ اس کا ہمسایہ گجرات پہلے ہی ہندو مسلم تعلقات کے لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے۔ اس کی دوسری توجیہہ یہ تھی کہ جونا گڑھ تین اطراف سے خشکی کے راستے بھارت سے گھرا ہوا ہے اور پاکستان سے اس کا فاصلہ 300میل ہیلہٰذا اسے بھارت کا حصہ ہونا چاہیئے جسے نواب آف جونا گڑھ نے یہ کہہ کررد کر دیا کہ ریاست کا رابطہ سمندر کے ذریعے پاکستان سے با آسانی ممکن ہے۔ لارڈ ماونٹ بیٹن نے بھی بھارت کے موقف کی تائید کی کہ ہندو اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے اس کا الحاق بھارت سے ہونا چاہیئے لیکن نواب صاحب اس تمام تر دبائو کے باوجود اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ بھارت اور ماونٹ بیٹن جودلائل جونا گڑھ کے لیے دے رہے تھے خود کشمیر میں بالکل اس کے خلاف کر رہے تھے۔ اسی منظرنامے میں بھارتی وزیر اعظم نے پاکستانی وزیراعظم کو ایک ٹیلی گرام بھی بھیجا اور کہا کہ ہم ریاست میں استصواب رائے یا ریفرنڈم کر وائیں گے جس پر لیاقت علی خان نے بھارتی قبضے کو منظور نہ کرنے کا علان کیااور اسے پاکستان کی سرحدوں اور بین الاقوامی اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا جسے بھارت نے حسب عادت قبول نہیں کیا اوراپنی افواج واپس نہ بلوائیں اور ریاست میں حالات خراب کر دیئے گئے اور اس نہج پر لائے گئے کہ نواب محمد مہابت خان جی کو اپنے خاندان کے ساتھ ریاست چھوڑ کر کراچی آنا پڑ گیا اور یہاں پر ایک عبوری حکومت قائم کی ادھر ریاست میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور عورتوں کی عصمت دری اور مسلمانوں کے املاک کی لوٹ مار شروع کردی گئی۔ بھارت کے وزیرداخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے استصواب رائے کرانے کا اعلان کیا اب بھارت اپنے اس موقف سے بھی پھر گیا کہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی نگرانی میں کرایا جائے اور کہا اگر اقوام متحدہ چاہے تو اپنے ایک دومبصر بھیج دے ورنہ تو استصواب ہر صورت میںکرایاجائے گا۔ بھارتی محقق راکیش انکت نے لکھاہے کہ بھارت خود ہی جج خود ہی وکیل اور خود ہی منتظم بنا اور یہ سارا عمل کرایا گیا۔ اس استصواب رائے میں 99.95فی صد ووٹ بھارت کے حق میں آئے یوں بھارت کے مطابق ریاست کے مسلمان عوام نے بھی اس کے حق میں ووٹ دیا اور یہ سارا عمل اپنی ہی نگرانی میں خود ہی کروایا گیا یعنی اس کی کوئی بین الاقوامی حیثیت نہیں تھی۔ اس سے پہلے ہی پاکستان جنوری 1948میں جونا گڑھ کے مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے جا چکاتھا جس نے اس مسئلے کو بھی کشمیر کمشن کے حوالے کر دیا لیکن کشمیر کے مسئلے کی حساسیت کے پیش نظر اس مسئلے کو پوری اہمیت نہیں دی جا سکی اور ابھی تک اس کو حل کرنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی تاہم2020میں پاکستان کے نئے نقشے میں جب اسے شامل کیا گیا جو تقسیم ہند کے فارمولے کے بالکل مطابق ہے تو نہ صرف پاکستان میں اس معاملے کو دوبارہ اہمیت ملی بلکہ بھارت میں تو اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا اور یہ بھارت کے دوہرے معیار کا ثبوت ہے۔ اس نے کشمیر میں ڈوگرہ راجہ کے فیصلے کو تو حرف آخر مانا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق تہتر سال گزارنے کے باوجود وہاں استصواب رائے سے گریزاں ہے جبکہ جونا گڑھ میں اس نے کسی کا انتظار کیے بغیر ہی یہ رائے شماری کرادی اور ہندو اکثریت ہونے کو دلیل بنا کر نواب آف جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کے فیصلے کے باوجود اس کو نہ مانا اور ریاست پر قبضہ کرکے اسے گجرات صوبے کا حصہ بنا دیا لیکن دوسری طرف کشمیر میں اس نے راجہ کے فیصلے کو ہی درست قرار دیا جبکہ بھارت کے اسی کشمیرفارمولے کے مطابق ہی جونا گڑھ پر پاکستان کا ہی حق بنتا ہے جبکہ یہاں کے عام کو اپنے مسلمان نواب سے کسی قسم کی شکایت بھی نہیں تھی جبکہ دوسری طرف کشمیر میں مسلمان اکثریت ہمیشہ راجہ کے مظالم کا شکاررہی۔لہٰذا ہمیںجونا گڑھ کے مسئلے کو قومی اور بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ضرور اور پُرزور طریقے سے اجاگر کرنا چاہیئے اور دنیا کو بتانا چاہیئے کہ بھارت پاکستان کے حصے پر ناجائز طور پر قابض ہے اور اس قبضے کو ختم ہونا چاہیئے۔