اسلام آبا ( میگزین رپورٹ )بڈھ بیر‘ کیپٹن اسفند یار بخاری اور پاک فوج ایک دوسرے سے لازم وملزوم کی ریشمی ڈوری میں بندھے ہوئے ہیں، 18 ستمبر 2015ءکی صبح پھولوں کے شہر پشاور میں بڈھ بیر کا معرکہ ہوا، پاکستان کے سپوت اورفوج کے نڈر جواں نے اپنے خون سے ملک وملت کے دشمنوں کے ناپاک ارادوں کو خاک میں ملا دیا ۔سولہ دسمبر 2014ءسانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد بڈھ بیر پر 14 تخریب کاروں کے حملے کو سب سے بڑی دہشت گردی کی کارروائی سمجھی جاتی ہے 5 دہشت گردوں کو واصل جہنم کرکے ضلع اٹک‘ پاک فوج اور بخاری خانوادے کا ”شہزادہ“ کیپٹن اسفند یار بخاری شہادت کے عدیم المثال مرتبے ومنصب پر فا ئزہو گیا۔ خصوصی نشست میں شہید کیپٹن سید اسفند یار بخاری کے بلند حوصلہ والد ڈاکٹر سید فیاض بخاری نے بتایا کہ قوم ماضی میں جس طرح پاک آرمی کو پلکوں پر بٹھاتی ہے، چاہتے ہیں کہ ہم پھر سے پاکستانی سپاہ کے لیے وہی خیالات، وہی جذبات ، وہی خواہشات کے حامل بن جائیں،انہوں نے کہا کہ ان کے لیے اور ان کی خانوادہ سے زیادہ عزیز پاکستان اور پاک فوج ہے ہمیں اپنی روز مرہ گفتگو اور نصاب کو پاک فوج کے تذکروں سے دل نشین بنانا چاہیے ، ہمیں اپنے بچوں کو 1971-1965ءاور معرکہ کارگل کی طرح معرکہ بڈھ بیر بار بار یاد دلانا ہے۔ ڈاکٹر فیاض نے بتا یا کہ کہ آرمی پبلک سکول کے بعد معرکہ بڈھ بیر کے ہیرو کیپٹن اسفند یار بخاری کو پہلا جنگی اعزاز”تمغہ جرات“ عطا ہوا، دوسرا تمغہ کیپٹن روح اللہ کو دیا گیا۔