جمعرات کو طلب یونیورسٹی سینیٹ اجلاس سے قبل بیان بازی شروع‘ الزمات کی بوچھاڑ میں صدر مملکت ‘ وزیر تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط لکھ دیے گئے


کراچی (قمر خان) وفاقی اردو یونیورسٹی میں محض چند ہفتوں کے مہمان بدیسی مستقل وائس چانسلر کے استعفیٰ کے بعد جامعہ میں ایک بار پھر بحران کو شکار ہے جبکہ اختیارات کی رسی کشی نے اساتذہ‘سینیٹرز اور
 ڈپٹی چیئرسینیٹ سمیت تمام اہم عہدیداروں کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔صدر مملکت اور چانسلر ڈاکٹر عارف علوی کیجانب سے 15 ستمبر کو طلب یونیورسٹی سینیٹ اجلاس سے قبل ہی کوتاہیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے اوربیان بازی شروع ہوگئی جبکہ الزمات کی بوچھاڑ میں صدر مملکت وزیر تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کو خط لکھ دیے گئے۔ دوسری جانب عبدالحق کیمپس میں انجمن اساتذہ کی جانب سے کلاسوں کا بائیکاٹ اور احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کی نامزد کنندہ کمیٹی کے
 رکن ڈاکٹر کمال حیدر نے صدرِ پاکستان اور یونیورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی کے نام اپنے ایک خط میں موقف اختیار کیا ہے کہ موجودہ ڈپٹی چیئر نے سینٹ کی خالی نشستوں پر اپنے من پسند افراد کا تقرر کروانے کے لیے سمری متعلقہ فورم سے مسترد کئے جانے کے باوجود چور دروازے سے منظور ی کے لئے صدرِ پاکستان کو ارسال کروادی۔ ڈاکٹر کمال حیدر نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ اگر فوری طور پر یونیورسٹی کے آئین کے مطابق نامزد کنندہ کمیٹی کی تشکیل کر کے سینٹ کے اراکین کی ضروری نئی تقرریاں نہ کی گئیں تو یونیورسٹی کے نظم و نسق کو قائم رکھنے کا اعلی ترین ادارہ دسمبر میں تحلیل ہوجائے گا اور یونیورسٹی آئینی بحران کا شکار ہوجائے گی۔ ڈاکٹر کمال نے صدر پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سینٹ ہدایت کے مطابق نامزد کنندہ کمیٹی کی تشکیل کر کے فوری طور پر کمیٹی کا اجلاس طلب کرنے کی ہدایت جاری فرمائیں تاکہ سینٹ میں خالی نشستوں پر نامزدگیوں کی سفارش آئینی طریقہ کار کے مطابق چانسلر دفتر کو ارسال کر کے ماہِ دسمبر میں وفاقی اردو یونیورسٹی کو آئینی بحران سے محفوظ رکھا جاسکے۔ خط کی نقول پروچانسلر، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن، ڈپٹی چیئرسینٹ اور تمام اراکین سینٹ کو ارسال کردی ہیں۔ دوسری جانب سینٹ کے اراکین ڈاکٹر توصیف احمد خان اور ڈاکٹر محمد عرفان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سینٹ کے مذکورہ اجلاس کی کارروائی تاحال انہیں فراہم نہیں کی گئی جس سے ڈاکٹر کمال حیدر کے خدشات درست ثابت ہونے کا احتمال ہے۔ انہوں نے ڈپٹی چیئر سینٹ سے مطالبہ کیا کہ سینٹ کے 48ویں اجلاس کی دوسری نشست کی کارروائی فوری طور پر تمام اراکین سینٹ کو فراہم کی جائیں۔ ادھر وفاقی اردو یونیورسٹی کے ڈپٹی چیر سینٹ اے کیو خلیل نے ڈاکٹر ریاض اور ڈاکٹر توصیف کی جانب سے جاری بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں نے اصل حقائق چھپا کر سینٹ کی رکنیت کیلئے خود کونا اہل ثابت کیا جو ان پر عائد فرد جرم کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر توصیف کو مستعفی ہوجاتا چاہئے تھا ۔میں بحیثیت استاد انکا احترام کرتا ہوں مگر انکی اس حرکت پر شرمسار بھی ہوں۔انھوں نے 15 تاریخ کو منعقد ہونے سینٹ کے اجلاس کے حوالے سے انکی لاعلمی اور گمراہ کن موقف پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک نکاتی ایجنڈا اسلام آباد سے موصول ہوا تھا اسکو متنازعہ بنانے کا،واحد مقصد یونیورسٹی کی سینٹ کو بحران میں مبتلا کرنا ہے انھوں نے کہا بعض حلقوں کی جانب سے جان بوجھ کر سابقہ سرچ کمیٹی پر 35لاکھ روپے خرچ کرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقریبآ 4 لاکھ روپے کے قریب اخراجات آئے تھے جسمیں سفری اخراجات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ کے دستور میں یک طرفہ اور خفیہ ترامیم کو تینوں کیمپس کے اساتذہ مسترد کرچکے ہیں کیونکہ وہ دو نا اہل "سینئرز" کی کو پروڈکشن تھی جس کا واحد مقصد فارغ لوگوں کو مالی تحفظ فراہم کرنا تھا اس وقت کئی جامعات اسی ماڈل کے مطابق،کامیابی سے چل رہی ہیں اگر ترامیم مقصود ہیں تو ڈاکٹر جعفر کی سر براہی میں ایک بار پھر نئی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں تینوں کیمپس سے تجاویز لی جائیں قانونی ماہرین سے مشاورت کی جائے وزارت تعلیم اور سینئرز کو آن بورڈ لیا جائے اسکے بعد تجاویز سینٹ میں پیش کی جائیں۔
اردو یونیورسٹی

ای پیپر دی نیشن