بارشوں کا سلسلہ انسانی زندگی کی مستقل ضرورت اور حصہ ہے۔بارش نہ ہو تو لوگ آسمان کی طرف دیکھ کر دعائیں مانگتے ہیں ،نماز استقاء کیلئے کھلے میدانوں میں جمع ہوتے ہیں اور گڑگڑا کراللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ،اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور بعض اوقات تو اسی وقت بارش شروع ہوجاتی ہے یا ایک دو دن بعد بادل آتے ہیں اور خوب برستے ہیں۔پانی زندگی ہے۔پانی نہ ہو تو ہر چیز ختم ہوجائے اور زمین ایک چٹیل میدان کی صورت اختیار کرلے ،یہ ساری بہاریں ،یہ سارے نظارے اور ٹھنڈی ہوائیں ،اللہ کی رحمت یعنی بارش کے ہی محتاج ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ سالوں کی ایک طویل خشک سالی کے بعد بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا ،پیاسی زمین اور مخلوق کو ہمیشہ بارشوں کا انتظار رہتا ہے اور جب بارش کی صورت میں اللہ کی رحمت برستی ہے تو ہر چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا ہے اور ہر چیز نکھر جاتی ہے۔لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ بادلوں کی یہ کالی گھٹائیں ان کیلئے تباہی لے کر آرہی ہیں اور یہ بارش برسنے کے بعد قیامت صغریٰ آئے گی۔
فی زمانہ بارشوں کی پیش گوئی کی سہولت موجود ہے۔اب تو لوگ اس پیش گوئی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی اپنے جلسوں اور شادی کی تقاریب کا انعقاد کرتے ہیں۔اس مون سون میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں کے حوالے سے بھی محکمہ موسمیات نے پہلے سے وارننگ دی تھی اور آگاہ کیا تھا کہ شدید بارشیں ہونگی ،لیکن حسب معمول ہماری حکومت سوئی رہی اور حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ نہیں کیا۔
2010کے سیلاب کے بعد فلڈ کمیشن نے ایڈوائس دی تھی کہ چار پانچ سال بعد اسی طرح کا ایک اور سیلاب آنے والا ہے۔اس لئے پانی کو ذخیر ہ کرنے کیلئے چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں۔پانی کے راستوں اور گزرگاہوں کو کھلا کیا جائے اور بیراجوں کو توسیع دی جائے ،نیز زائد از ضرورت پانی کو کھلے میدانوں ،صحراوںاور ریگستانوں کی طرف موڑ دیا جائے۔لیکن یہ تجاویز الماریوں کی نذر ہوگئیں اور کسی نے کمیشن کی رپورٹ اور تجاویز کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
14جو ن سے شروع ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں پہلے بلوچستان پھر سندھ اور جنوبی پنجاب اور کے پی کے بری طرح متاثر ہوئے۔میں نے خود سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ،ہر طرف تباہی اور بربادی کا منظر تھا ،بستیوں کی بستیاں ملیا میٹ ہوگئی تھیں ،سکولز ،مساجد ،قبرستان اور ہنستے بستے گھر آنا ًفاناً پانی کی بے رحم موجوںمیں بہہ گئے، سینکڑوں دیہات صفحہٗ ہستی سے مٹ گئے تھے۔درختوں پر پناہ لینے والے ،لوگوں کو مدد کیلئے پکارتے پکارتے ، امداد کا انتظار کرتے درختوں سمیت پانی میں ڈوب گئے مگر کوئی ان کی فریاد رسی کیلئے نہیں آیا۔ایسے دلخراش واقعات نے ہمارے نظام کی قلعی کھول دی ہے اور بہت سے سوالات چھوڑے ہیں۔ہماری یہ بھی بدقسمتی ہے کہ مرکز اور صوبوں نے آپس کی لڑائی جاری رکھی اور سیلاب زدگان کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔میڈیا نے بھی قوم کو غیر اہم ایشوز میں الجھائے رکھا۔اللہ کا شکر ہے کہ ہماری قوم بار بار آزمائشوں کا سامنا کرنے کے بعد بحرانوں اور طوفانوں سے نپٹنے کا گر سیکھ چکی ہے۔حکومتوں سے مایوس ہونے کے بعد لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو بچانے کیلئے کمر بستہ ہوگئے ،الخدمت کے ہزار ہا کارکن ہر جگہ مصیبت زدہ لوگوں کا سہارا بن گئے اور اپنی جانوں پر کھیل کر پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کی جانیں بچائیں۔دیر کے نوجوان فرمان اللہ نے تو جرائت وبہادری کی ایک نئی داستان رقم کی اور ساری دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔رسوں سے جنازے کی چار پائی باندھ کر اس سے ہیلی کاپٹر کاکام لیا اوردریا پار کراکے کئی لوگوں کی زندگیاں بچائیں۔ہماری حکومتیں اس وقت جاگیں جب عالمی میڈیا پر لوگوں کے ڈوبنے اور بلڈنگوں کی تباہی کے مناظر وائرل ہوئے۔
ابتدائی اندازوںاور اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ ہزار کے قریب لوگ چکمہ اجل بن چکے ہیں۔بارہ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے۔لاکھوں مکانات تباہ ہوگئے۔لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ،مگر اصل نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔
فی الوقت تین کام کرنے کے ہیں ،پہلا کام لوگوں کو ریسکیو کرنا اور موت کے منہ سے بچانا ہے۔پھر ان کو ٹھہرانے اور کھلانے کا انتظام کر نا اور تیسرا اہم کام لوگوں کی بحالی کا ہے۔لوگوں کو دوبارہ بسانا ان کیلئے روزگار کا اورضرورت کے بنیادی سامان کی فراہمی کا ہے۔پہلے مرحلے میں الخدمت فاونڈیشن کے رضا کاروںنے ریلیف کا کام بہت احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے۔ سول سوسائٹی نے بھی ان رضا کاروں کا بھرپور ساتھ دیا اور ریسکیو کے کاموں میں حصہ لیا۔الخدمت کے رضا کار دوسرے اور تیسرے مرحلہ کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں اور پہلے مرحلہ کی طرح ان دو مراحل کو بھی کامیابی سے سر کریں گے۔
یہ آزمائش کا وقت ہے جن کے گھر اولاد اور مال محفوظ ہیں وہ اللہ کا شکر ادا کرنے کیلئے مالی ایثار کریں۔اس وقت نعروں کی نہیںاجتماعی و توبہ و استغفاراور متاثرین کی خدمت کرنے کی ضرور ت ہے۔مصیبت کی اس گھڑی میں حکمرانوں کو اپنی انا کے بتوں کو توڑ کر مل بیٹھنا ہوگا ،مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ایک پیج پر آنا پڑے گاتاکہ تعمیر نو کا کام بہتر طریقے سے ہو سکے۔حکومت نے اب تک متاثرین کو ریلیف دینے کے جو اعلانات کئے ہیں ،وہ محض اعلانات ہیں جن پر کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔جب تک حکومت اپنے اعلانات پر عمل کرے گی ،مصیبت زدگان اپنی مصیبتوں سمیت اللہ کے پاس پہنچ چکے ہونگے۔
میں اپنی قوم سے ،اہل خیر سے ،ڈاکٹروں، انجینئرز، وکلاء ،اساتذہ ،طلبہ و طالبات اور ہر شعبہ زندگی کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی پریشانیوں کو کم کرنے میں حصہ لیں۔