10 لاکھ مکانات ، لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصل متاثر

ہماری زراعت اورسیلاب کی تباہ کاریاں
ساجد محمود 
حالیہ مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے  آنے والا سیلاب اس قدر خوفناک اور ہولناک تباہ کاریاں لایا ہے جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ندی نالوں اور دریائوں میںاٹھنے والی طغیانی  کے نتیجے میں60 فیصد سے زائد رقبہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ سب سے زیادہ تباہی سندھ اور بلوچستان میں ہوئی جبکہ خیبر پختونخواہ اور جنوبی پنجاب کے متعدد اضلاع بھی سیلاب کی اس آفت سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ سینکڑوں کی تعداد میں انسانی قیمتی جانوں کے ضیاع، مال مویشی کے نقصانات اور لاکھوں ایکڑ پر تیار شدہ کھڑی فصلیں، سبزیات اور باغات اجڑگئے۔ اس کے علاوہ 10 لاکھ سے زائد مکانات مکمل اور جزوی طور پر سیلاب کے نقصانات سے نہ بچ سکے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں مزید ہزاروں مال مویشی کی ہلاکت کے بعد سیلاب سے اب تک ہلاک ہونے والے مال مویشی کی تعداد ایک لاکھ  8 ہزارہوگئی جبکہ لاکھوں  ایکڑ اراضی پر فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔صوبہ سندھ میں بھی سیلاب بہت بڑی تباہی لایا ہے، جہاں سندھ کی 90 فیصد سے زائد فصل مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ سندھ کے 23 اضلاع، 101 تحصیلیں، اور 5181 دیہات اس سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ لاتعداد مویشیوں کی ہلاکت کی رپورٹس آ رہی ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق صوبے میں27 لاکھ 53 ہزار ایکڑ رقبے پر فصلیں متاثر ہوئی ہیں جن میں سے 19 لاکھ سے زائد ایکڑ پر کاشت کی گئی فصلیں تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ ان میں کپاس، کھجور، گنا، چاول، سبزیاں، ٹماٹر، مرچ، پیاز و دیگر شامل ہیں۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے مطابق زراعت میں سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا ہے۔دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں کپاس اور کھجور کی فصل مکمل تباہ ہو چکی ہے ، سندھ میں گنے ، مرچ، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں ، چاول کی فصل کو جزوی نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ میں سندھ کے زرعی شعبے کو حتمی طور پر 1300 ارب روپے سے زائد نقصان ہونے کا خدشہ ظاہرکیا گیا ہے۔ 
پنجاب میں مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصانات بارے صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ (پی ڈی ایم اے) نے تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق راجن پور، ڈی جی خان، میانوالی، مظفرگڑھ، سیالکوٹ اور لیہ سیلاب سے متاثر ہوئے۔ 2 لاکھ 1 ہزار 965 زرعی علاقے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔بارش اورسیلاب سے 2 لاکھ سے زائد بڑے جانور، 2 ہزار 586 چھوٹے جانور ہلاک ہو ئے۔ ڈی جی خان اور راجن پور میں بارشوں کے بعد سے رودکوہیوں نے  طغیانی کی شکل اختیار کر لی ۔امسال ضلع راجن پور میں 2 لاکھ 57 ہزارایکڑ رقبہ پر کپاس کاشت ہوئی جس میں سے رودکوہیوں کے سیلاب سے 48270 ایکڑ فصل متاثر ہوئی  ہے۔ روجھان میں 65838 ایکڑ رقبہ پر کپاس کاشت ہے جس میں سے روکوہیوں سے 369 ایکڑ رقبہ پر کپاس کی فصل متاثر ہوئی ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ڈی جی خان ڈویژن میں کپاس کے 60784 ایکڑ، تل 9953 ایکڑ، مونگ 18217 ایکڑ، دھان 8153 ایکڑ اور چارہ جات کے 11044 ایکڑ سمیت مختلف کاشتہ سبزیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔محکمہ زراعت جنوبی پنجاب کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ڈی جی خان اور راجن پور میں سیلاب سے 3لاکھ 57 ہزار 171 ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔جن میں کپاس 1لاکھ 76ہزار12 ایکڑ، دھان 53 ہزار 532 ایکڑ، تل اور مونگ کی 21 ہزار 784، کماد 28 ہزار 272 ایکڑ، چارہ جات کے 77ہزار 556 ایکڑ شامل ہیں۔محکمہ زراعت جنوبی پنجاب کے مطابق سیلاب اور رودکوہیوں کے پانی سے راجن پور کے 179 مواضعات متاثر ہوئے ہیں۔ جس میں سے 24 ہزار 794 گھروںکو ، جبکہ سیلاب سے2 لاکھ 90 ہزار  ایکڑ پر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد بلوچستان اور سندھ میں بھی کپاس وچاول سمیت کئی سبزیوں و پھلوں کی فصل تباہ ہو چکی ہیں۔پاکستان میں آنے والے مہینوں میں گندم کی بوائی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔پاکستان میں حکام اور ماہرین زراعت نے خبردار کیا ہے کہ ملک بھر میں جاری حالیہ بارشوں اور سیلاب سے چاول اور کپاس سمیت موسم گرما کی فصلوں کو نقصان پہنچنے کے بعد مون سون کے موسم کے اختتام پر ملک میں خوراک کی قلت کا خدشہ ہے۔بیشتر زرعی زمینیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں جسے مکمل طور پر نکالنے میں تقریباً تین سے چار ماہ لگیں گے۔اگلی گندم کی فصل کی بوائی شروع ہونے سے پہلے پہلے حکومت کو اس پانی کی نکاسی کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں ۔بدقسمتی سے ان حالات میں بھی سرکاری گوداموں میں گندم کے خراب ہونے اور گل سڑ جانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ سیلاب کی قدرتی آفات کے نتیجے میں سبزیوں ،فصلوں اور باغات میں اس قدر تباہی ہوچکی ہے کہ غذائی اجناس کی قلت کی وجہ سے اجناس کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی ہیں اور لوگوں کی قوت خرید بھی جواب دے چکی ہے۔ عوامی مشکلات کے پیش نظر حکومت واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت سے پیاز اور ٹماٹر جیسی اہم اور ضروری سبزیاں درآمد کرنے کے آپشن پر غورکر رہی ہے۔اسی طرح افغانستان اورایران کے بارڈرکے ذریعے بھی اشیائے خوردونوش کی درآمد کیلئے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اگر ہم خیبر پختونخواہ کی بات کریں تو سرکاری اعدادوشمار کے مطابق متعدد اضلاع میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے 14 ہزار 394 ایکڑ پر کھڑی 12 اقسام کی فصلوں کو نقصان پہنچا اور 1261 مویشی ہلاک ہو گئے۔محکمہ زراعت کے پی کے مطابق سیلاب کی قدرتی آفت کے باعث فصلیں اور سبزیاں پانی کی نذر ہوجانے سے کسانوں کو 3 ارب 66 کروڑ 27 لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔محکمہ زراعت کے مطابق کے پی کے میں مکئی کی 4 ہزار 543 میٹرک ٹن فصل اور 3 ہزار ٹن سے زیادہ مختلف اقسام کی سبزیاں سیلابی ریلوں کی نذر ہوئی اور 5 ہزار 140 میٹرک ٹن کجھوربھی ضائع ہوئی ہے۔ جبکہ جنوبی وزیرستان ، ڈی آئی خان، ٹانک اورکرک میں مال مویشیوں کوسب سے زیادہ نقصان پہنچا۔محکمہ لائیو اسٹاک خیبر پختونخوا کے مطابق جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور کرک سمیت دیگر اضلاع میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث 1261 مویشی اور تین ہزار 711 مرغیاں ہلاک ہوئیں جبکہ 65 جانوروں کے شیڈز کو مکمل اور84 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ڈی جی محکمہ لائیو اسٹاک کے مطابق بارشوں اور سیلاب کے باعث صوبے میں 418 بڑے مویشی اور843 بھیڑ بکریاں ہلاک ہوئیں، ضلع ٹانک میں 229، جنوبی وزیرستان میں 274 جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی 240 مویشی ہلاک ہوئے۔اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو34 اضلاع میں سے27 اضلاع میں شدید مالی و جانی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔حالیہ مون سون اور سیلاب میں 4 لاکھ ایک ہزار970 ایکڑ رقبہ زیر آب آیا۔

ای پیپر دی نیشن