کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کے انصاف کا ایک خاص انداز ہے۔ اس میں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔ اس انصاف سے کوئی بچ نہیں سکتا چاہے بادشاہ ہو یا غلام، امیر ہو یا فقیر۔ یہی کچھ اودھ کے پہلے مسلمان گورنر سعادت خان کے ساتھ ہوا۔ سعادت خان دراصل ایران کا رہنے والا تھا۔ ا±س دور میں ہندوستان پر مغل حکمران تھے اور ہندوستان بڑا پ±ر سکون اور امیر ملک گنا جاتا تھا۔ پورے ایشیا اور حتیٰ کہ یورپ سے بھی خواہشات کے غلام لوگ اپنی قسمت بنانے کیلئے ہندوستان ہی کار±خ کرتے تھے۔
1705 میں ایک ایرانی نوجوان سید محمد امین بہتر رزق کی تلاش میں ہندوستان آیا۔ ا±س کا والد اور بڑا بھائی پہلے ہی اسی مقصد کیلئے ہندوستان میں تھے۔ اس نوجوان کو اپنے والد اور بھائی سے تو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکا تو اس نے خود اپنی قسمت آزمانے اور قسمت بنانے کا فیصلہ کیا۔ نوجوان تھا، خوبصورت تھا، ذہین اور چالاک تھا اور یہ اوصاف ترقی کرنے کیلئے کافی تھے۔ سب سے پہلے اس نے دہلی کے قریب ایک جاگیردار نواب سر بلند خان کے پاس ملازمت کی۔ ایک دن نواب سر بلند خان نے کسی چھوٹی سی بات پراس نو جوان کو طعنہ دیا جو جوش میں یہ برداشت نہ کر سکا۔ لہٰذا نواب سر بلند خان کی ملازمت چھوڑ کر یہ سیدھا دہلی در بار جا پہنچا اور کسی نہ کسی طرح دہلی دربار میں ملازمت حاصل کرلی۔
دہلی دربار سازشوں کا گڑھ تھا اور سید محمد امین جیسے شاطر اور چالاک نوجوان کیلئے بڑا سازگار ماحول۔ لہٰذا اپنی شاطرانہ چالوں کی وجہ سے یہ نوجوان بہت جلد بادشاہ کی نظروں میں آ گیا جس نے اسے اپنا ذاتی مصاحب بنا دیا۔ سید محمدامین نے جب مزید حالات کا تجزیہ کیا تو اسے پتہ چلا کہ بادشاہ سلامت صوبہ بہار کے گورنرسید حسنین علی سے سخت خائف اور پریشان تھے جسکی بڑھتی ہوئی طاقت اور مختلف سازشیں تخت دہلی کیلئے مسلسل دردِ سر تھیں۔ لہٰذا سید محمد امین نے اپنی شاطرانہ چالوں سے بادشاہ سلامت کی جان اس سازشی گورنر سے چھڑا دی۔ بادشاہ سلامت اس کارروائی سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے نوجوان سید محمد امین کو صوبہ اودھ کی گورنری بخش دی اور سیدمحمد امین نے سعادت خان کے نام سے 1732ء میں اپنا نیا منصب سنبھالا۔ انصاف اور ضمیر کا تقاضا تو یہ تھا کہ سعادت خان تخت دہلی کا وفادار اور بادشاہ سلامت سے مخلص رہتا جسکی وجہ سے وہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہوا تھا لیکن ا±سکی سازشی طبیعت اور لالچی فطرت نے ا±سے چین نہ لینے دیا۔ لہٰذا اس نے شروع سے ہی دو چیزوں کی طرف توجہ دی۔ اول یہ کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کی جائے اور اس مقصد کیلئے ہر جائز و نا جائز طریقہ استعمال کیا جائے اور دوم یہ کہ تخت دہلی سے جان چھڑائی جائے۔ یعنی اپنے ہی محسن پر کاری ضرب لگا کر اس سے اقتدار چھینا جائے۔ اس مقصد کیلئے سعادت خان نے ساز باز کر کے دکن کے گورنر نظام الملک کو اپنے ساتھ ملایا اور اپنی طاقت بڑھانے کیلئے ان دونوں نے مل کر ایران کے بادشاہ نادر شاہ کودہلی پر حملہ کی دعوت دی۔ ان کا خیال تھا کہ نادر شاہ دہلی سے مال و دولت سمیٹ کر بہت جلد واپس چلا جائیگا اور ہندوستان کی وسیع سلطنت کے وہ دونوں بلا شرکت غیرے مالک بن جائیں گے۔ سچ ہے انسانی لالچ کی کوئی انتہا نہیں اور لالچ میں انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ دوست دشمن میں تمیز نہیں کر سکتا۔ یہی کچھ ا±ن دونوں کے ساتھ بھی ہوا۔
نادر شاہ ایک کائیاں بادشاہ اور جنگجو پسند جرنیل تھا۔ ایسی دعوت سے فائدہ نہ اٹھانا اسکی فطرت کے خلاف تھا لہٰذا ا±س نے فوری طور پردہلی پر چڑھائی کی اور سلطنت دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ لیکن ا±س نے ان دونوں کو بھی نہ بخشا۔ انہیں غدار قوم اور غدار حسن کے لقب سے نواز کر ان سے ان کی ساری دولت چھین لی اور مزید یہ کہ انہیں اپنی رعایا سے تمام دولت اکٹھی کرنے کا حکم دیا جو انہوں نے کی اور نادر شاہ کو پیش کی۔ کہا جاتا ہے کہ نادر شاہ کے ڈر سے ان دو حضرات نے غریب سے غریب آدمی کے پاس سے بھی سب کچھ چھین لیا۔ نادر شاہ نے تمام دولت سمیٹ کر ان دونوں حضرات کی جی بھر کر بے عزتی کی اور انہیں عوام کے سامنے ذلیل کیا۔
مال و دولت لیکر نا در شاہ تو واپس ایران چلا گیا لیکن سعادت خان اپنی بے عزتی سے استقدر دل برداشتہ ہوا کہ دکن کے گورنر نظام الملک کے ساتھ ملکر دونوں نے خودکشی کا پروگرام بنایا۔ نظام الملک بھی بہت شاطر آدمی تھا۔ ا±س نے اپنے مخالف سعادت خان سے جان چھڑانے کا موقعہ غنیمت سمجھا اور سعادت خان کو اس بے عزتی کے خلاف مزید بھڑ کا یا اور خودکشی میں ا±سکا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ لہٰذا دونوں نے زہر پی کر خود کشی کا پروگرام بنایا۔ پروگرام کے مطابق زہر کے دو پیالے لائے گئے۔ سعادت خان نے اپنا پیالہ غٹاغٹ پی لیا۔ نظام الملک نے بھی اپنا پیالہ پینے کی اداکاری کی لیکن اسکا پیالہ خالی تھا کیونکہ اس نے زہر لانے والے خادم کو بھاری انعام دیگر اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا۔ لہٰذا سعادت خان جس نے اپنے ملک، اپنی قوم اور سب سے بڑھ کر اپنے محسن کے ساتھ غداری کی تھی قدرت کے انصاف کی نذر ہو گیا وہ موقعہ پر ہی وفات پاگیا۔
سعادت خان نے اودھ پر محض سات سال یعنی 1732ءسے لیکر 1739 ءتک حکومت کی جتنی دولت اکٹھی کی تھی وہ سب چھین کرنا درشاہ لے گیا۔ اسکے باوجود اسکی موت کے بعد کسی نہ کسی طرح بچ جانے والی دولت کا اندازہ لگایا گیا تو وہ 90لاکھ پونڈ سٹرلنگ سے کچھ زیادہ تھی اور یہ تخمینہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی معرفت لگوایا گیا تھا۔ اس دور کے 90 لاکھ پونڈ سٹرلنگ کی دولت تو آج کے حساب سے کھربوں میں چلی جائے گی۔ بدقسمتی سے ہماری موجودہ تاریخ میں بھی بنگلہ دیش اور پاکستان کے کچھ لیڈرز جنہوں نے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنی قوم اور اپنے ملک سے زیادتی کی۔ اِسی قسم کا انصاف انکا مقدر بنا۔ سمجھنے والوں کیلئے بہت بڑا سبق ہے۔ کاش مسلمان امراءاور صاحبانِ اقتدار یہ لوٹ مار کی عادت نہ اپناتے۔