عوام پہلے ہی بھاری بلوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے کہ فی یونٹ بجلی مزید ایک روپے 46پیسے مہنگی کردی گئی۔ اور اب گیس کے گردشی قرضے کم کرنے کی سکیم پر بات چیت چل رہی ہے‘۔ فیصلے سے قبل حکومت کو یقین اس بات کا کرلینا چاہیے کہ عام صارفین پر بوجھ نہ پڑے۔‘ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاﺅن شروع کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ بہتری آئے گی۔ ‘ہرسال 589ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے جس کے سدباب کیلئے نگران حکومت نے بجلی چوروں کے خلاف ملک گیر کریک ڈا?ن، خصوصی عدالتوں کے قیام، رینجرز کی خدمات حاصل کرنے اور صوبائی و ضلعی سطح پر خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بجلی چوری آج کا مسئلہ نہیں دہائیوں سے چلا آرہا ہے اور اس پر قابو پانے کیلئے متعدد طریقے بھی متعارف کرائے جاتے رہے لیکن عملدرآمدکے فقدان کے باعث سب بے سود رہے۔ حالیہ گرینڈ آپریشن کے دوران بھی لاہور میں بجلی چوری میں اہم شخصیات ملوث نکلیں۔ بجلی چوری پاکستان کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اگر آغاز پر ہی اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاتا تو آج یہ تناور درخت نہ بنتا۔ گردشی قرضے اربوں تک نہ پہنچتے۔ بہر حال نگران حکومت نے یہ چیلنج قبول کیا ہے تو اسے سراہا جانا چاہئے تاہم بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاﺅن کو اسی وقت کامیاب سمجھا جائےگا جب اسکے اثرا ت غریب آدمی تک پہنچیں گے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک وفاق میں جو سیاسی جماعت بھی حکومت میں رہی وہ عام آدمی کی زندگی آسان بنانے کے دعوے کرتی رہی۔ آج عام آدمی کی زندگی کتنی آسان ہے؟ یہ صورت حال اور آج کے تلخ حقائق ان دعوﺅں کا ایک مکمل شفاف جواب ہے۔ ہمارے ملک میں ایک مسلئہ ہے‘ کہ فیصلے تو ہوجاتے ہیں تاہم عمل درآمد نہیں ہوتا‘ اور نگرانی کے لیے مسلسل فالو اپ بھی نہیں ہوتا نتیجتاً عام آدمی روز بروز پس رہا ہے‘ اسے انصاف میسر ہے اور نہ ہر سطح پر استحصال کے باعث عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی کھا سکتا ہے۔ ملک کا پورا معاشی نظام اصلاح طلب ہے‘ وفاق میں اقتدار میں رہنے والی سیاسی جماعتوں نے ملک میں بہتر معاشی نظام لانے کا دعوی کیا تھا لیکن اس لیے ناکام رہیں کہ ان کے پاس دعوﺅں اور عوام کے لیے لولی پاپ کے سوا کچھ نہیں تھا‘ اور ملک میں بہتری لانے کے نام پر مسلسل گرداب میں پھنستا چلا گیا۔ ماضی بعید کی بات چھوڑ دیتے ہیں ماضی قریب کی بات کرتے ہیں۔ یہ پی ڈی ایم حکومت کا غالباًچھٹا مہینہ تھا۔
گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی اور پی ڈی ایم حکومت پورا ڈیڑھ سال اقتدار میں رہی مگر اس رپورٹ کی روشنی میں ہی اپنے لیے بہتری کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکا۔ اصل مسلئہ یہ ہے کہ قومی سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی قابل عمل فارمولا نہیں ہے اور ملک کی معیشت کو درپیش بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتیں مکمل اور درست زمینی حقائق سے لاعلم ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے قبل دعوے کرتی ہیں‘ اقتدار مل جائے تو کہتی ہیں کہ بہت مشکل حالات ہیں۔ ابھی حال ہی میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹرشمشاد اختر نے بھی یہی کچھ کہا ہے‘ جب کہ وہ معیشت دان ہیں اور اسٹیٹ بنک کی گورنر رہ چکی ہیں۔ آج ملک کو جس قدر بھی معاشی مسائل درپیش ہیں اسکی ذمہ داری انہی پر ہے جو ماضی میں ملکی معیشت کے پالیسی ساز رہے ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی جو ”ٹیبل 3a“ فارمولے کے تحت پاکستان کے کرنٹ اکاونٹ سے متعلق تھی۔ یہ جدول آئی ایم ایف کے مطالبے پر تیار کیا گیا تھا۔ مالیاتی امور کا کوئی ماہر شخص بھی اسے آسانی سے نہیں سمجھ سکتاتو عام آدمی کہاں اسے سمجھے گا اور کیسے ان مسائل کی شناخت کرے گا؟ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ صورت حال اچھی نہیں ہے،اور سفارش کی گئی تھی کہ عوام کو زمینی حقائق سے آگاہ کردیا جائے تو بہتر ہے، بجائے اس کے کہ انہیں غیر ضروری سیاسی بحث میں الجھائے رکھا جائے۔ اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی تھی کہ اشیا اور سروسز کی زیادہ درآمد پر خرچ ہونیوالی رقم برآمدات سے حاصل ہونےوالی رقم سے بہت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ بیرونی ممالک سے بھجوائی جانے والی 54 بلین ڈالر کی رقم منہا کرنے سے بھی یہ خسارہ کم کیے جانے کی توقع نہیں ہے‘ اور ملکی معیشت پرغیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوگی اس کے بجائے پاکستان کے قرضوں کے واجب الادا حجم میں 12.699 بلین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں، قرضوں اور اس پر سود کی ادائیگی نئے قرضے حاصل کرکے کی جاتی ہے جس کے نتیجے میں ہر سال قرضوں کا حجم بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کی رائے میں اگر زرمبادلہ کے ذخائر کو 20 بلین امریکی ڈالر سے اوپر رکھنا ہے تو پاکستان کو 6.6 بلین امریکی ڈالر کی اضافی ضرورت ہوگی‘ یہی وجہ تھی کہ آئی ایم ایف نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتے ہوئے اسے چھ بلین ڈالر کی اضافی رقم کا بندبست کرنے کیلئے پابند کیا تھا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو کسی بھی دوسرے ذریعے سے تقریباً 73 بلین ڈالر درکار ہیں۔ گزشتہ سال معاشی ماہرین کے اندازوں کے مطابق اس مدت کے دوران 51 ارب امریکی ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع تھی۔ یہ ہدف حاصل کرنے کے بعد بھی 22 ارب ڈالر کی ضرورت باقی رہتی ہے اور حکومت کیلئے مسئلہ یہی ہے کہ یہ رقم کہاں سے آئیگی؟ پاکستان مسلم لیگ(ضیاءالحق شہید) ملک کے معاشی مسائل کے حل کیلئے ماہرین کی ایک مستند ٹیم تشکیل دیکر سفارشات مرتب کرنے جارہی ہے۔
اس وقت ملک کا سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ پتہ چلایا جائے کہ ملکی معیشت کہاں کھڑی ہے۔ جس طرح کا معاشی بحران اور مشکل صورتحال آج ہمیں درپیش ہے اسکی ہلکی سی ابتداءدسمبر 2021ءمیں ہوئی تھی۔‘ 2022 میں 78 ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمدات اور 32 ارب ڈالر کی ریکارڈ برآمدات ہوئی تھیں جس سے ہماری تجارت کا مجموعی تخمینہ 110 ارب ڈالر بنتا تھا، اس 78 ارب کے مقابلے میں ہمیں برآمدات اور ترسیلات زر کی مد میں 55 سے 56 ارب ڈالر ملے تو پچھلے سال حکومت درآمدات کو کنٹرول کرکے 55 ارب ڈالر تک لے آئی لیکن اس سے خام مال اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ ساتھ دیگر برآمدات میں بھی کمی آئی اور اسکے نتیجے میں مارکیٹ مجموعی طور پر 30 ارب ڈالر تک سکڑ گئی۔اس صورتحال سے نکلنے کیلئے منڈیاں کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ صنعتیں بند ہونے سے چیزیں مہنگی ہوتی جارہی ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے کیلئے بند صنعتیں چلانی اور ان کیلئے خام مال درآمد کرنا ہوگا۔ صنعت چلے گی تو ملک کا پہیہ چلے گا اور کاروبار بڑھے گا، مہنگائی کا بحران بھی درآمدات بڑھانے سے کم ہو سکتا ہے اور 300 کا ڈالر 250 کا بھی ہو سکتا ہے۔
ملکی معیشت کیلئے بنیادی فکر کی بات یہ ہے کہ اگلے چار پانچ سالوں میں پاکستان میں 60 بلین ڈالر سے زیادہ کی غیر ملکی سرمایہ کاری کیسے ہوگی اور اسکے امکانات کیا ہیں۔ اگرغیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاروں کے پاس دستیاب فنڈز کا جائزہ لیا جائے پاکستان میں امکانات بھی اور یہ کوئی سرمایہ کاری کی بڑی رقم بھی نہیں ہے، تاہم سوال یہ ہے کہ جس طرح یہاں نظام حکومت چلائے جاتے رہے ہیں اور اب بھی چلایا جارہا ہے اسے دیکھ کر عالمی سرمایہ کاروں کیلئے پاکستان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے محفوظ آپشن نہیں‘ ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ان کے سرمایہ کے محفوظ ہونے کی ضمانت دے سرمایہ کاری کیلئے اعتماد بڑھائے‘ پاکستان کوسرمایہ کاری کیلئے محفوظ آپشن بنانے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں امن قائم کیا جائے‘ اسمگلنگ ختم کی جائے‘ ملکی معیشت سیاسی ترجیحات سے آزاد کی جائے‘ امن کیلئے ہمیں اپنی سرحدوں پر خطرات سے نمٹنا ہوگا‘ چاہے یہ خطرہ کسی بھی ہمسایہ کی جانب سے ہو‘۔
ملکی معیشت میں دوسری سب سے بڑی خرابی لیکج کی ہے‘ یہ لیکج بجلی‘ گیس‘ٹیکس چوری اور قومی وسائل کی ضیاع کی شکل میں ہے‘، بجلی کی چوری اور کم وصولیوں سے نمٹنے کے اعلان کے بعد، یقین ہے کہ نگران حکومت وہ کام کرے گی جو ان تمام سالوں، شاید دہائیوں میں نہیں کیا گیا؟ سب سے پہلے تو یہ یقین ہے کہ بجلی چوروں اور بدعنوان اہلکاروں کے بارے میں تمام اعداد و شمار حکومت کے پاس تھے اسکے باوجود اس نے کارروائی کیوں نہ کی بجلی چوری کے خلاف کارروائی کی جائے یاکم از کم بہت سنجیدہ اقدام کرنے کے ارادہ باندھا جائے۔