بھارت میں سینکڑوں افغان طلبہ نے نئی دیلی میں ایک مظاہرے میں مطالبہ کیا کہ ان کے ویزے میں توسیع کی جائے اور انہیں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دی جائے۔اس وقت کئی افغان طلبہ ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے باوجود بھارت میں مقیم ہیں۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد وہ ممکنہ انتقامی کارروائیوں کے خوف اور ملک کے معاشی بحران کی وجہ سے مواقع کی کمی کے باعث وطن واپس جانے سے گریزاں ہیں۔ماضی میں بھارت نے افغانستان جیسے ممالک کے ہزاروں غیر ملکی طلبہ کو انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے لیے وظائف دیے تھے۔خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق افغانستان اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ارسلان قیومی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نے جولائی سے شروع ہونے والے موجودہ تعلیمی سیشن کے لیے وظائف جاری نہیں کیے ہیں۔طالب علموں نے کہا کہ ان کے بھارت کے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد وہ مسلسل پولیس کی گرفتاری کے خوف میں جی رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ طلبہ کو نہ تو اسکالرشپ مل رہے ہیں اور نہ ہی بھارت میں کام کرنے کی اجازت ہے۔انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل کمار توہین کہتے ہیں انہیں افغان طلبہ کے مسائل کا ادراک ہے اور حکومت ان کے خدشات کو دور کرنے میں سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی طالب علم کو اس کی خواہش کے خلاف ملک چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔کمار توہین نے مزید کہا کہ وزارت خارجہ اسکالرشپ کے معاملے پر جلد ہی فیصلہ کرے گی۔کونسل نے اس سے قبل تقریباً ایک ہزار افغان شہریوں کو بھارت میں انڈرگریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسٹڈی گرانٹس کی پیشکش کی تھی۔ان گرانٹس میں افغان طلبہ کو 25 ہزار سے 28 ہزار 500 بھارتی روپے کے درمیان ماہانہ وظیفہ، سبسڈی والی ٹیوشن فیس اور سفری اخراجات شامل تھے۔تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں سے انہیں ان فنڈز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا ہے اور بہت سے لوگوں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی ہے یا دوسرے ممالک چلے گئے ہیں۔