جنریشن وائی (y)یا جنریشن نیکسٹ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو 1980 سے 1994کے درمیان پیدا ہوئے اور شائد یہ وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے اپنے بزرگوں کو گھر میں برآمدے یا صحن میں عموماً ناشتے کے ساتھ دلجمعی سے اخبار کا مطالعہ کرتے دیکھا ہے ۔ہر گھر کا اپنا پسندیدہ اخبار ہوا کرتا تھا جس کی خبریں ، کالم اور ادا ریے تفصیل سے پڑھنا بزرگوں کا مرغوب ترین مشغلہ تھا یہی نہیں بلکہ شام کو جب گھر کے افراد اکھٹے ہوتے تو ان خبروں اور کالموں پر بحث کی جاتی اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کیا جاتا اس بحث کو بچے بھی اردگر کھیلتے یا چلتے پھرتے سنتے تھے چاہے وہ گفتگو میں شامل نہ بھی ہوں اس طرح سب ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات سے کافی حد تک باخبر رہتے تھے اور ملک کی سیاست سے بھی ان کا تعلق برقرار رہتا تھا ۔
ہر میدان میں تبدیلی ناگزیر ہے اور ارتقائی عمل کو روکا نہیں جا سکتا ۔ زندگی کے ہر میدان کی طرح مواصلات کی دنیا میں بھی حیرت انگیز تیز رفتار ترقی ہوئی ہے ۔ انسان فطری طور پر تحریر کے مقابلے میں تقریر اور تقریر سے زیادہ تصویر کی طرف جلدمتوجہ ہو تا ہے جس کے نقوش انسانی ذہن پر زیادہ دیرپا ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج خبر رسانی کے بے تحاشا ذرائع ہونے کے باوجود ٹیلی وژن کی اپنی اہمیت ہے ۔پہلے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف چند گھنٹے خبروں کے لیے مختص تھے ۔ پاکستان میں پرائیویٹ نیوزچینلز کا آغاز جنرل پرویز مشرف دور میں ہوا۔اس صورتحال نے خبر رسانی کا منظر نامہ یکسر تبدیل کر دیا اور الیکٹرانک میڈیا کی کایا ہی پلٹ گئی ۔کسی بھی موقع پر پل پل کی تازہ صورتحال سے ناظرین کو فورا مطلع کیا جانے لگا ۔ ایک سرکاری ٹی وی کے خبرنامے کے مقابلے پر دن بھر مختلف خبریں اور نقطہ نظر سامنے آنے لگے اور اسی دور میں میڈیا کی آزادی اور ترقی کے ترانے بھی گائے گئے ۔بلاشبہ یہ نئے دور کا آغاز تھا مگر پچھلی ایک دہائی سے سوشل میڈیا کے پوری قوت سے خبر رسانی کے عمل میں شامل ہونے سے عام آدمی کی رسائی ان معاملات تک ہونے لگی ہے جن کا ماضی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ برقی زرائع ابلاغ میں سوشل میڈیا نے ترسیل خبر کو تیز ترین کر دیا ۔ گزشتہ ایک دہائی سے ماجرا یہ ہے کہ اکثر نیوز چینل سے پہلے اطلاعات سوشل میڈیا کے زریعے عوام تک پہنچ جاتی ہیں چند دن پہلے سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ ملک میں جرائم میں اضافہ نہیں ہو رہا بلکہ جرائم سوشل میڈیا کی بدولت تیزی سے بے نقاب ہو رہے ہیں ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ حالیہ سر وے کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد آٹھ کروڑ سے زائد ہے جبکہ موبائل رکھنے والوں کی تعداد انیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔یعنی اب زیادہ افراد واقف اور باخبر ہیں مگر ان خبروں میں کتنی صداقت ہوتی ہی یہ الگ سے ایک طویل بحث ہو سکتی ہے بقول شاعر :کیونکہ عالم ہے عجب بے خبری کا عالم
ان حالات میں نیوز چینلز کی ذمہ داری میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ صحافتی اخلاقیات اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے خبروں کا مجوزہ درست معیار قائم رکھا جائے مگر بریکنگ نیوز اور سب سے پہلے خبر دینے کے چکر میں بہت سے اصول و ضوابط کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے ۔خبریں پہنچانے اور حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کی سعی اور اپنے پروگرام کی ریٹنگ کے چکر میں عوام کو ایک عجیب ہیجان میں مبتلا رکھا جاتا ہے چند پروگرامز کے علاوہ مجال ہے کوئی عملی یا قابل بحث بات کو گفتگو کا موضوع بنایا جائے ۔ ملکی مسائل کی طرف توجہ دلانا ، قومی اور بین الاقوامی حالات سے عوام کو باخبر رکھنا اور مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی وجوہ کی اصل حقیقت سے آگاہ کرنا نیوز میڈیا کا بنیادی کام ہونا چاہیے کیونکہ خبریں تو سوشل میڈیاپر سیکنڈز کے حساب سے شیر ہو رہی ہیں اور اس کو قابو کرنا اور کسی خاص ضابطے کے ماتحت کرنا ابھی تقریباً ناممکن ہے اور عوام کے لیے سوشل میڈیا بہت سے حالات میں کسی نعمت سے کم نہیں مگر ساتھ ساتھ جھوٹ اور مبالغہ کا عنصر سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پرائم ٹائم حالات حاضرہ کے ٹیلی وژن پروگراموں سے اس بات کی توقع کی جاتی کہ وہ اکثریت سوشل میڈیا کی طرح بغیر تحقیق کے سنی سنائی کو آگے نہ چلائیں چند گھسے پٹے موضوعات پر گھنٹوں ضائع نہ کیے جائیں۔ ڈیجٹل دنیا میں روزانہ کے حساب سے نئے سوالات اور موضوعات جنم لے رہے ہیں ۔سوشل میڈیا کے بے تحاشا پھیلاو¿ کے باوجود آج بھی پاکستان میں ٹیلی وژن کا کردار کافی متحرک ہے خاص طور رات کو نشر ہونے والے حالات حاضرہ کے پروگرام جن سے شہریوںکی بڑی تعداد استفادہ کرتی ہے ۔ آزاد میڈیا ہر باشعور انسان کی خواہش ہے مگر اس آزادی کا تقاضا غیر جانب داری بھی ہے جہاں سیاسی اور سماجی وابستگیاں آپ کو مجبور نہ کریں کہ خبروں اور تجزیوں میں یہ لگاو¿ واضح طور پر نظر آنے لگے اور چند افراد بیٹھ کر گالم گلوچ حتی کہ نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بات کو حرف آخر ثابت کرنے پر تلے ہوں اور عوام کو درست صورتحال سے آگاہی کے لیے کسی نسبتا قابل اعتماد بین الاقوامی میڈیا سے رجوع کرنا پڑے ۔ ضرورت اس بات کی ہے خوف و اضطراب کو فروغ دینے کی بجائے ہر پلیٹ فارم سے مکالمے کی طرف راغب کیا جائے اور مختلف ماہرین کے زریعے مسائل کے ممکنہ حل پیش کیے جائیں تاکہ امید کی کوئی کرن نظر آتی رہے ۔